Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
16. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحِجْرِ
باب: سورۃ الحجر سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3124
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ أُمُّ الْقُرْآنِ وَأُمُّ الْكِتَابِ وَالسَّبْعُ الْمَثَانِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ الحمدللہ (فاتحہ)، ام القرآن ہے، ام الکتاب (قرآن کی اصل اساس ہے) اور «السبع المثانی» ہے (باربار دہرائی جانے والی آیتیں) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الحجر 3 (4704)، سنن ابی داود/ الصلاة 351 (…) (تحفة الأشراف: 13014) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث کو مؤلف نے ارشاد باری تعالیٰ: «ولقد آتيناك سبعا من المثاني والقرآن العظيم» (الحجر: ۸۷) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (131)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث کو مؤلف نے ارشاد باری تعالیٰ: «ولقد آتيناك سبعا من المثاني والقرآن العظيم» (الحجر: ۸۷) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3124 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3124  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کو مؤلف نے ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ﴾ (الحجر: 87) کی تفسیرمیں ذکرکیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3124   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1457  
´سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الحمد لله رب العالمين» ام القرآن اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ۱؎ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1457]
1457. اردو حاشیہ: [اُم]
بمعنی اصل ہے۔ چونکہ یہ سورت مبارکہ مضامین قرآن کا خلاصہ ہے۔ بالخصوص توحید (توحید الوہیت ربوبیت۔ اسماء وصفات) رسالت اور قیامت۔ اس لئے اسے ام القرآن اور اُم الکتاب کا نام دیا گیا ہے۔ اور السبع المثانی یعنی وہ سات آیات جو بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ سورۃ الحجر آیت۔87 میں ہے۔ [وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ]
بلا شبہ ہم نے آپ کو ساتھ آیتیں دی ہیں۔ جو بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ اور عظمت والا قرآن دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1457   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4704  
4704. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام القرآن، یعنی سورۃ الفاتحہ ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4704]
حدیث حاشیہ:
سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہر فرض نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں۔
جن کا پڑھنا ہر امام اور مقتدی کے لئے ضروری ہے جس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اسی لئے اس سورت کو سبع مثانی اور قرآن عظیم کہا گیا ہے۔
جو لوگ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنی ناجائز کہتے ہیں ان کا قول غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4704   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4704  
4704. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام القرآن، یعنی سورۃ الفاتحہ ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4704]
حدیث حاشیہ:

سورۃ الفاتحۃ کی سات آیات ہیں جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں۔
نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ امام یا مقتدی نماز فرض ہو یا نفل سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت ہے۔

سورۃ الفاتحہ کو قرآن عظیم اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں پورے قرآن کی تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے گویا سمندر کوکوزے میں بند کردیا گیا ہے۔
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی حمدو ثنا پھر روز جزا میں سزا و جزا کا جامع بیان اس کے بعد شرک کی تمام اقسام سے کل اجتناب کا اقرار اور ہر قسم کی مدد اللہ سے مانگنے کا عہد آخر میں صراط مستقیم کا تعین اوراسے اختیار کرنے کی طلب و دعا یہی مضامین قرآن مجید میں اجمال اورتفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کے بیان کے لیے مختلف اندازاختیار کیے گئے ہیں بلکہ اس سورت کا مزید اختصار ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ہے تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4704