صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
110. بَابُ الْبَيْعَةِ فِي الْحَرْبِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا:
باب: لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا۔
حدیث نمبر: 2963
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاشِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَخِي، فَقُلْتُ: بَايِعْنَا عَلَى الْهِجْرَةِ، فَقَالَ:" مَضَتِ الْهِجْرَةُ لِأَهْلِهَا"، فَقُلْتُ: عَلَامَ تُبَايِعُنَا، قَالَ:" عَلَى الْإِسْلَامِ وَالْجِهَادِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا، انہوں نے عاصم سے، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے، اور ان سے مجاشع بن مسعود سلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ (فتح مکہ کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت تو (مکہ کے فتح ہونے کے بعد، وہاں سے) ہجرت کر کے آنے والوں پر ختم ہو گئی۔ میں نے عرض کیا، پھر آپ ہم سے کس بات پر بیعت لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام اور جہاد پر۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2963 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2963
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت میں ہجرت کا جو نشانہ تھا وہ فتح مکہ پر ختم ہوگیا۔
کیونکہ سارا عرب دارالاسلام بن گیا‘ بعد کے زمانوں میں مکی زندگی کا نقشہ سامنے آنے پر ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔
نیز اسلام اور جہاد بھی باقی ہے۔
لہٰذا ان سب پر بیعت لی جاسکتی ہے۔
بیعت سے مراد حلف اور اقرار ہے کہ اس پر ضرور قائم رہا جائے گا۔
خلاف ہرگز نہ ہوگا۔
بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں جو بیان ہوں گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2963
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2963
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلی حدیث کے مطابق صحابہ کرام ؓنے غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے ہاتھ پر جہاد کرنے کی بیعت کی کہ جب تک وہ زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔
اس بعیت کا مطلب یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے راہ فراراختیارنہیں کریں گے اگرچہ اس راستے میں ان کی جانیں ختم ہوجائیں۔
دوسری حدیث میں حضرت مجاشع ؓسے بیعت لینے کا ذکر ہے۔
وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے۔
اس وقت مکہ سے ہجرت کرنے کا موقع نہیں تھا کیونکہ وہ اب مکہ دارالسلام بن چکا تھا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ ہجرت کے لیے بیعت ان لوگوں سے لیتے تھے جو فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے تھے، جو لوگ اس کے بعد مسلمان ہوئے ان سے ہجرت کی بیعت نہیں لی جاتی تھی بلکہ ان سے جہاد کی بیعت لی جاتی تھی کیونکہ جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے، البتہ جس ملک میں انسان کا ایمان خطرے میں ہو، وہاں سے ہجرت کرکے ایسے علاقے میں جانا ضروری ہے جہاں ایمان محفوظ ہو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2963
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4826
حضرت مجاشع بن مسعود سلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے لیے بیعت کرنے کی خاطر حاضر ہوا، تو آپﷺ نے فرمایا: ”ہجرت، اصحاب ہجرت کو مل چکی ہے، لیکن اب اسلام، جہاد اور نیکی کے کام کے لیے بیعت ہو سکتی ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4826]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس ہجرت میں فضیلت تھی اور جو مقصود اور لازمی تھی،
وہ اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آباد ہونا تھا،
تاکہ مسلمانوں کی قوت ایک جگہ مجتمع ہو جائے اور مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل کر لیا جائے،
اب جب مکہ دارالسلام بن گیا ہے،
تو مدینہ کی طرف ہجرت کرنا،
امتیاز اور شرف کا باعث نہیں رہا،
کیونکہ مکہ فتح ہو چکا اور اسلام کو غلبہ اور قوت و شوکت حاصل ہو گئی،
اس لیے اس ہجرت کا شرف اور امتیاز مہاجرین کو حاصل ہو چکا ہے،
اس لیے اب اگر کوئی ایسے علاقہ میں رہتا ہے،
جہاں دین کا اظہار اور اس کے فرائض و واجبات کو ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ ہجرت کر سکتا ہے،
تو اس کو ہجرت کرنا چاہیے،
لیکن اگر اسلام کا اظہار اور فرائض و واجبات کی ادائیگی پر کوئی قدغن نہیں ہے یا ہجرت کرنا ممکن نہیں ہے،
تو اس کے لیے ہجرت کرنا ضروری نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4826