Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
110. بَابُ الْبَيْعَةِ فِي الْحَرْبِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا:
باب: لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا۔
حدیث نمبر: 2959
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ زَمَنُ الْحَرَّةِ أَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ ابْنَ حَنْظَلَةَ يُبَايِعُ النَّاسَ عَلَى الْمَوْتِ، فَقَالَ: لَا أُبَايِعُ عَلَى هَذَا أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی کے زمانہ میں ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے (یزید کے خلاف) موت پر بیعت لے رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں موت پر کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2959 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2959  
حدیث حاشیہ:
حرہ کی لڑائی کی تفصیل یہ کہ ۶۳ھ میں حضرت عبداللہ بن حنظلہ اور کئی مدینہ والے یزید کو دیکھنے گئے۔
جبکہ وہ لوگوں سے اپنی خلافت کی بیعت لے رہا تھا۔
مدینہ کے اس وفد نے جائزہ لیا تو یزید کو خلافت کا نا اہل پایا۔
اور اس کی حرکات ناشائستہ سے بیزار ہو کر واپس مدینہ لوٹے اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی۔
یزید کو جب خبر ہوئی تو اس نے مسلم بن عقبہ کو سردار بنا کر ایک بڑا لشکر مدینہ روانہ کردیا۔
جس نے اہل مدینہ پر بہت سے ظلم ڈھائے‘ سینکڑوں ہزاروں صحابہ وتابعین اور عوام و خواص‘ مردوں و عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا۔
یہ حادثہ حرہ نامی ایک میدان متصل مدینہ میں ہوا۔
اسی لئے اس کی طرف منسوب ہوا۔
عبداللہ بن زید کا مطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول کریمﷺ کے دست حق پرست پر موت کی بیعت کرچکے ہیں۔
اب دوبارہ کسی اور کے ہاتھ پر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے۔
معلوم ہوا کہ موت پر بھی بیعت کی جاسکتی ہے۔
جس سے استقامت اور صبر مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2959   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2959  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دینا ایمان کاحصہ ہے لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ اعزاز نہیں کہ اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا جائے،بلکہ ایساکرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ اگر غیرنبی کی بیعت موت پر کی جائے، پھر اس کی غلطی واضح ہوجائے تو دوصورتیں ہیں:
اس کی بیعت پر بدستور قائم رہا جائے۔
اس صورت میں موت خلاف حق ہوگی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی بیعت ترک کردی جائے۔
اس وقت موت ترک بیعت پر ہوگی۔
دونوں صورتیں ہی ہلاکت خیز ہیں، اس لیے آغاز امر میں بیعت نہ کرنا آسان ہے کہ موت خلاف حق یاترک بیعت پر آئے۔

واضح رہے کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے مرمٹنے پر بیعت لے رہے تھے جس کا انکار حضرت عبداللہ بن زید ؓنے کیا۔
اس کامطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول اللہ ﷺکے دست حق پر موت کی بیعت کرچکے ہیں، اب دوبارہ کسی دوسرے کے ہاتھ پر نئے سرے سے بیعت کی ضرورت نہیں۔

اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا واضح نہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒنے آگے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت موت پر ہوئی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2959   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4824  
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ان کے پاس کوئی آدمی آیا اور کہنے لگا، یہ حنظلہ کا بیٹا لوگوں سے بیعت لے رہا ہے، تو انہوں نے پوچھا، کس چیز پر؟ اس نے کہا، موت پر، انہوں نے کہا، میں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4824]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بیعت رضوان اس شرط پر لی گئی تھی،
کہ کوئی راہ فرار اختیار نہیں کرے گا اور اس کا مقصد یہی تھا،
ہم جان قربان کر دیں گے،
لیکن بھاگیں گے نہیں،
اس لیے بعض صحابہ کرام نے الفاظ کا لحاظ رکھتے ہوئے کہا،
ہم نے موت پر نہیں،
فرار نہ اختیار کرنے پر بیعت کی تھی،
لیکن بعض نے انجام یا نتیجہ اور مقصد کا لحاظ کرتے ہوئے یہ کہا،
کہ ہم نے موت پر بیعت کی تھی کیونکہ جب مقابلہ میں ڈٹ جانا ہے اور ہر قسم کے حالات پر صبر کرنا ہے،
تو اس کا انجام موت بھی ہو سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4824   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4167  
4167. حضرت عباد بن تمیم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حرہ کے دن عبداللہ بن حنظلہ کی لوگ بیعت کر رہے تھے تو حضرت ابن زید ؓ نے کہا: ابن حنظلہ لوگوں سے کس شرط پر بیعت لے رہے ہیں؟ انہیں بتایا گیا: وہ موت پر بیعت لے رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں تو رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص سے موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ اور وہ (عبداللہ بن زید ؓ) آپ ﷺ کے ہمراہ حدیبیہ میں موجود تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4167]
حدیث حاشیہ:
جہاں آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ سے موت پر بیعت لی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4167   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4167  
4167. حضرت عباد بن تمیم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حرہ کے دن عبداللہ بن حنظلہ کی لوگ بیعت کر رہے تھے تو حضرت ابن زید ؓ نے کہا: ابن حنظلہ لوگوں سے کس شرط پر بیعت لے رہے ہیں؟ انہیں بتایا گیا: وہ موت پر بیعت لے رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں تو رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص سے موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ اور وہ (عبداللہ بن زید ؓ) آپ ﷺ کے ہمراہ حدیبیہ میں موجود تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4167]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒ کامقصود یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ صلح حدیبیہ کے وقت موجود تھے اورانھوں نے بیعت رضوان میں شمولیت کی تھی۔

حرہ مدینہ طیبہ سے باہر ایک میدان ہے جہاں اہل مدینہ اور یزید کے لشکر کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
اہل مدینہ نے یزید کی بیعت کو ختم کردیا تھا۔
اس واقعے میں عبداللہ بن حنظلہ اور اس کی تمام اولاد شہید ہوگئی تھی۔

اگرچہ موت ایک غیر اختیاری فعل ہے اور اس غیر اختیاری فعل پر بیعت لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑتے رہیں گے، راہ فرار اختیار نہیں کریں گے یہاں تک کہ موت آجائے، اس معنی میں یہ بیعت ایک اختیاری فعل پر ہوگی۔
اسکی تفصیل ہم کتاب الجہاد میں بیان کرآئے ہیں اورموت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میدان جہاد میں ڈٹ کرمقابلہ کریں گے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4167