صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
110. بَابُ الْبَيْعَةِ فِي الْحَرْبِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا:
باب: لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا۔
حدیث نمبر: 2958
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، رَجَعْنَا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَمَا اجْتَمَعَ مِنَّا اثْنَانِ عَلَى الشَّجَرَةِ الَّتِي بَايَعْنَا تَحْتَهَا كَانَتْ رَحْمَةً مِنَ اللَّهِ، فَسَأَلْتُ نَافِعًا عَلَى أَيِّ شَيْءٍ بَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ، قَالَ: لَا بَلْ بَايَعَهُمْ عَلَى الصَّبْرِ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ (صلح حدیبیہ کے بعد) جب ہم دوسرے سال پھر آئے، تو ہم میں سے (جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) دو شخص بھی اس درخت کی نشان دہی پر متفق نہیں ہو سکے۔ جس کے نیچے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور یہ صرف اللہ کی رحمت تھی۔ جویریہ نے کہا، میں نے نافع سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کس بات پر بیعت کی تھی، کیا موت پر لی تھی؟ فرمایا کہ نہیں، بلکہ صبر و استقامت پر بیعت لی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2958 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2958
حدیث حاشیہ:
صلح حدیبیہ سے پہلے مکہ سے جب حضرت عثمان ؓ کے قتل کی افواہ آئی‘ تو آنحضرتﷺ نے اس ناحق خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر بیعت لی تھی کہ اس ناحق خون کے بدلے کے لئے آخری دم تک کفار سے لڑیں گے۔
اس بیعت پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کا اظہار قرآن میں فرمایا تھا۔
اور یہ اس بیعت میں شریک ہونے والے تمام صحابہؓ کے لئے فخر اور دین دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ہوسکتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ پھر بعد میں جب ہم صلح کے سال عمرہ کی قضا کرنے آنحضرتﷺ کے ساتھ گئے تو ہم اس جگہ کی نشان دہی نہ کرسکے جہاں بیٹھ کر آپﷺ نے ہم سےعہد لیا تھا۔
پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ یہ اسلام کی تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوا جہاں بیٹھ کر آنحضرتﷺ نے اپنے تمام صحابہ سے اللہ کے دین کے لئے اتنی اہم بیعت لی تھی۔
اس لئے ممکن تھا کہ اگر وہ جگہ ہمیں معلوم ہوتی تو امت کے کچھ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ میں پڑ جاتے اور ممکن تھا کہ جاہل اور خوش عقیدہ قسم کے مسلمان اس کی پوجا پاٹ شروع کردیتے۔
اس لئے یہ بھی خدا کی بہت بڑی رحمت تھی کہ اس جگہ کے آثار و نشانات ہمارے ذہنوں سے بھلا دئیے۔
اور امت کے ایک طبقہ کو اللہ نے شرک میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔
شرک کے اکثر مراکز کا آغاز ایسے ہی توہمات کی بنا پر شروع ہوا ہے۔
ابتدا میں لوگ کچھ یادگاریں بناتے ہیں۔
بعد میں وہاں پوجا پاٹ شروع ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2958
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2958
حدیث حاشیہ:
1۔
صلح حدیبیہ کے وقت حضرت عثمان ؓکے متعلق یہ افواہ پھیلی کہ کفار مکہ نے انھیں قتل کردیا ہے تو رسول اللہ ﷺنے اس خون ناحق کابدلہ لینے کے لیے ایک درخت کے نیچے تمام صحابہ کرام ؓ سے بیعت لی کہ اس خون ناحق کابدلہ لیے بغیر ہم واپس نہیں جائیں گے بلکہ کفار مکہ کے خلاف لڑتے رہیں گے۔
اسے بیعت رضوان کا نام دیاجاتا ہے جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔
2۔
جس درخت کے نیچے بیعت ہوئی اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے فرمایا:
آئندہ سال اس درخت کا ہم سے مخفی رہنابھی اللہ کی رحمت تھی کیونکہ اگر اس کی نشاندہی ہوجاتی تو ممکن تھا کہ اس کی وجہ سے کچھ لوگ فتنے میں مبتلا ہوجاتے اور جاہل لوگ اس کی پوجا پاٹ شروع کردیتے۔
ہمارے ہاں شرک کے اکثر مراکز اسی قسم کے توہمات کی پیداوار ہیں۔
3۔
واضح رہے کہ بیعت کی کئی قسمیں ہیں،مثلاً:
بیعت اسلام،بیعت ہجرت اور بیعت جہاد وغیرہ۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں عورتوں سے دین پرثابت قدمی کی بیعت بھی لی تھی،لیکن رائج الوقت بیعت تصوف کا دین اسلام میں کوئی وجود نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2958