Note: Copy Text and to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
6. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ
باب: سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3047
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي نَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ فَلَمْ يَنْتَهُوا" فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ، وَوَاكَلُوهُمْ، وَشَارَبُوهُمْ، فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، وَلَعَنَهُمْ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ، وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى تَأْطُرُوهُمْ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ يَزِيدُ: وَكَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ لَا يَقُولُ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو انہیں ان کے علماء نے روکا مگر وہ لوگ باز نہ آئے، اس کے باوجود وہ (علماء) ان کی مجلسوں میں ان کے ساتھ بیٹھے، ان کے ساتھ مل کر کھائے پئے تو اللہ نے بعض کے دل بعض سے ملا دیئے ۱؎ اور ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی، اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور مقررہ حدود سے آگے بڑھ جاتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل کر بیٹھ گئے۔ حالانکہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: نہیں، قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم اس وقت تک نجات نہ پاؤ گے جب تک کہ تم ان بدکاروں کو برائی سے روک نہ دو۔‏‏‏‏ ان کو بھلائی کی طرف موڑ نہ دو۔‏‏‏‏
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں: یزید نے کہا کہ سفیان ثوری اس روایت میں عبداللہ بن مسعود کا نام نہیں لیتے ہیں،
۳- یہ حدیث محمد بن مسلم بن ابی الوضاح سے بھی روایت کی گئی ہے، وہ علی بن بذیمہ سے، علی بن بذیمہ ابوعبیدہ سے اور ابوعبیدہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں،
۴- بعض راوی اسے ابوعبیدہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الملاحم 17 (4336)، سنن ابن ماجہ/الفتن 20 (4006) (تحفة الأشراف: 9614) (ضعیف) (سند میں ابو عبیدہ کا اپنے باپ عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ان میں کوئی اچھا اور کوئی برا نہ رہا، سب ایک جیسے مستحق عذاب ہو گئے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4006)

قال الشيخ زبير على زئي: (3047) إسناده ضعيف / د 4336، جه 4006

وضاحت: ۱؎: یعنی ان میں کوئی اچھا اور کوئی برا نہ رہا، سب ایک جیسے مستحق عذاب ہو گئے۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3047 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3047  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان میں کوئی اچھا اور کوئی برا نہ رہا،
سب ایک جیسے مستحق عذاب ہو گئے۔

نوٹ:
(سند میں ابوعبیدہ کا اپنے باپ عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3047   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4336  
´امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے درست نہیں ہے، پھر دوسرے دن اس سے ملتا تو اس کے ساتھ کھانے پینے اور اس کی ہم نشینی اختیار کرنے سے یہ چیزیں (غلط کاریاں) اس کے لیے مانع نہ ہوتیں، تو جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا پھر آپ نے آیت کریمہ «لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم» س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4336]
فوائد ومسائل:
یہ روایت تو سندَا ضعیف ہے، مگر حقیت یہی ہے کہ اگر فا سقوں، ظالموں اور اہلِ بدعت کے ساتھ للہ فی اللہ بغض نہ رکھا جائےاور مقاطعہ نہ ہو بلکہ ان کے ساتھ آزادانہ اختلاط ہو یوں کہ شرعی غیرت بھی اُٹھ جائے تو اس کا عقاب میرا خیال ہے کہ یہاں پر عذاب ہو نا چاہیئے تھا، انتہائی شدید ہوتا ہے، جیسے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ اور امتِ اسلامیہ کہ موجودہ صورتحال سے طاہر ہے۔
ولا حول ولا قوة إلا باللہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4336   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3048  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوعبیدہ (بن عبداللہ بن مسعود) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں جب کوتاہیاں و برائیاں پیدا ہوئیں تو اس وقت حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھائی کو گناہ میں مبتلا دیکھتا تو اسے اس گناہ کے کرنے سے روکتا، لیکن جب دوسرا دن آتا تو جو کچھ اس نے اسے کرتے دیکھا تھا وہ چیز اسے اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے سے نہ روکتی، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دل ایک دوسرے سے ملا دیئے اور انہی لوگوں کے متعلق قرآن نازل ہوا، آپ نے «لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون» سے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3048]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفرکیا تھا،
ان پرداؤد اورمسیح ابن مریم علیھم السلام کی زبانی لعنت بھیجی گئی تھی۔
کیوں کہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سے آگے بڑھ جاتے۔
جو بھی منکر،
قوم کرتی،
اوراس سے وہ لوگوں کو روکتے نہ تھے۔
وہ بہت ہی برا کرتے تھے۔
تم اُن میں سے بہتوں کو دیکھ رہے ہو کافروں سے دوستی کرتے ہیں،
انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا وطیرہ اختیار کیا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ ان سے سخت ناراض ہے،
وہ آخرت میں ہمیشہ ہمیش عذاب میں رہنے والے ہیں۔
اور اگر یہ لوگ اللہ پر اور اس نبیﷺ پر اور جو چیز اس نبیﷺ پر اتری ہے اس پر ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے،
لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ فاسق وبدکار ہیں (المائدہ: 78)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3048