Note: Copy Text and to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
6. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ
باب: سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3046
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْرَسُ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ سورة المائدة آية 67فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنَ الْقُبَّةِ، فَقَالَ لَهُمْ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، انْصَرِفُوا فَقَدْ عَصَمَنِي اللَّهُ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و نگرانی کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب آیت «والله يعصمك من الناس» اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچائے گا (المائدہ: ۶۷)، نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر خیمہ سے باہر نکالا اور پہرہ داروں سے کہا: تم (اپنے گھروں کو) لوٹ جاؤ کیونکہ میری حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے لی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16215) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: اللہ کا یہ وعدہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ خاص تھا، مسلمانوں کے دوسرے ذمہ دار اپنی حفاظت کے لیے پہرہ داری کا نظام اپنا سکتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن

وضاحت: ۱؎: اللہ کا یہ وعدہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ خاص تھا، مسلمانوں کے دوسرے ذمہ دار اپنی حفاظت کے لیے پہرہ داری کا نظام اپنا سکتے ہیں۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3046 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3046  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
 اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچائے گا (المائدۃ: 67)۔

2؎:
اللہ کا یہ وعدہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ خاص تھا،
مسلمانوں کے دوسرے ذمہ دار اپنی حفاظت کے لیے پہرہ داری کا نظام اپنا سکتے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3046   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:31  
31- طارق بن شہاب کہتے ہیں: یہودیوں سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر یہ آیت ہم لوگوں پر نازل ہوئی ہوتی۔ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کیے دین ہونے سے راضی ہوگیا۔(5-المائدة:13) تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دیتے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ بات جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی؟ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور جمعہ کے دن میں نازل ہوئی تھی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:31]
فائدہ:
اسلام میں صرف دوعید میں ہیں: ➊ عیداالنخی ➋ عید الفطر۔ ان کے علاوہ اسلام نے کسی اور دن کو عید نہیں کہا۔ مسلمانوں کو قرآن وحدیث کی تابعداری کرنی چاہیے، آج کل بعض لوگوں نے دین کے نام پر بدعات وخرافات کو عروج دے رکھا ہے، آئے دن بڑی سے بڑی بدعت ایجاد کر لیتے ہیں، انھی بدعات میں سے عید میلاد النبی بھی ہے، کس طرح نام نہاد اہل سنت اسلام سے مذاق کر رہے ہیں، الامان والحفیظ۔
ا «لْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ» ‏‏‏‏ (المائده: 3) واقعتاً عظیم المرتبت آیت ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے تین اہم باتیں ارشاد فرمائی ہیں:
① دین مکمل ہو گیا ہے، اس میں کسی قسم کے اضافے یا کمی کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ کسی امت کے لیے تکمیل دین ایک بہت بڑا اعزاز و انعام ہے جو امت محمدیہ کو نصیب ہوا۔
② دین اسلام ایک نعمت باری تعالیٰ ہے، اس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔
③ دین اسلام اللہ تعالی کی پسند ہے تو مسلمانوں کوبھی پسند ہونا چاہیے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ قرآن مجید کے ماہر تھے حتی کہ کوئی آیت کریمہ کہاں اور کب نازل ہوئی ہے، اس کا بھی علم رکھتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 31   

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْرَسُ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.
اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔ بعض نے یہ حدیث جریری کے واسطہ سے، عبداللہ بن شقیق سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و نگہبانی کی جاتی تھی، اور انہوں نے اس روایت میں عائشہ رضی الله عنہا کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن