صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
103. بَابُ مَنْ أَرَادَ غَزْوَةً فَوَرَّى بِغَيْرِهَا، وَمَنْ أَحَبَّ الْخُرُوجَ يَوْمَ الْخَمِيسِ:
باب: لڑائی کا مقام چھپانا (دوسرا مقام بیان کرنا) اور جمعرات کے دن سفر کرنا۔
حدیث نمبر: 2947
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ غَزْوَةً إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ نے، کعب رضی اللہ عنہ (جب نابینا ہو گئے تھے) کے ساتھ ان کے دوسرے صاحبزادوں میں یہی عبداللہ انہیں لے کر راستے میں ان کے آگے آگے چلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو (مصلحت کے لیے) دوسرا مقام بیان کرتے (تاکہ دشمن کو خبر نہ ہو)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2947 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2947
حدیث حاشیہ:
لفظ توریہ کے معنی یہ کہ کسی بات کو اشارے کنائے سے کہہ دینا کہ صاف طور سے کوئی نہ سمجھ سکے۔
ایسا توریہ جنگی مصالح کے لئے جائز ہے۔
لعل الحکمة فیه ماروي عن قوله صلی اللہ علیه وسلم بورك لأمتي في بکورھا یوم الخمیس وکونه صلی اللہ علیه وسلم کان یحب الخروج یوم الخمیس لا یستلزم المواظبة علیه القیام مانع منه وسیأتي بعد باب أنه خرج في بعض أسفارہ یوم السبت ثم أورد المصنف طرفا من حدیث کعب بن مالك الطویل وھو ظاھر فیما ترجم له قال الکرماني کعب ھو ابن مالك الأنصاري أحد الثلاثة الذین خلفوا وصار أعمی وکان له أبناء وکان عبداللہ یقودہ من بین ساتر بنیه (حاشیة بخاري)
یعنی اس میں حکمت یہ کہ آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ میری امت کے لئے جمعرات کے روز صبح سفر کرنے میں برکت رکھی گئی ہے مگر اس سے مواظبت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ بعض سفر آپﷺ نے ہفتے کو بھی شروع فرمائے ہیں۔
حضرت امامؒ یہاں کعب بن مالک کی طویل حدیث لائے ہیں جس سے ترجمۃ الباب ظاہر ہے۔
کعب بن مالک وہی انصاری صحابی ہیں جو تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔
آپؓ کے کئی لڑکے تھے جن میں سے عبداللہ نامی آپ کا ہاتھ پکڑ کے چلا کرتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2947