سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
66. باب مَا جَاءَ فِي تَغْيِيرِ الأَسْمَاءِ
باب: خراب نام کی تبدیلی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2838
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ، وَقَالَ: أَنْتِ جَمِيلَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ مُرْسَلًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، وَعَائِشَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ سَعِيدٍ، وَمُسْلِمٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ، وَشُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَخَيْثَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے
«عاصیہ» کا نام بدل دیا اور کہا
(آج سے) تو
«جمیلہ» یعنی:
”تیرا نام جمیلہ ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس حدیث کو یحییٰ بن سعید قطان نے مرفوع بیان کیا ہے۔ یحییٰ نے عبیداللہ سے عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے، اور بعض راویوں نے یہ حدیث عبیداللہ سے، عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے عمر سے مرسلاً روایت کی ہے،
۳- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن سلام، عبداللہ بن مطیع، عائشہ، حکم بن سعید، مسلم، اسامہ بن اخدری، ہانی اور عبدالرحمٰن بن ابی سبرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الآداب 3 (3139)، سنن ابی داود/ الأدب 70 (4952)، سنن ابن ماجہ/الأدب 32 (3733) (تحفة الأشراف: 8155)، و مسند احمد (2/18)، وسنن الدارمی/الاستئذان 62 (2739) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ ایسے نام جو برے ہوں انہیں بدل کر ان کی جگہ اچھا نام رکھ دیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3733)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2838 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2838
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ایسے نام جو برے ہوں انہیں بدل کر ان کی جگہ اچھا نام رکھ دیا جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2838
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4952
´برے نام کو بدل دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ کا نام بدل دیا ۱؎، اور فرمایا: تو جمیلہ ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4952]
فوائد ومسائل:
عرب لوگ عاس اور عاصیہ نام رکھتے تھے۔
ان سے مراد ہوتی تھے ظلم و ذیادتی اور برائی سے انکار کرنے والا کرنے والی۔
مگر اس میں عصیان نافرمانی کا مفہوم بھی ہے۔
اس لیے اس نام کو بدل دیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4952
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3733
´نا مناسب ناموں کی تبدیلی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام ”عاصیہ“ تھا (یعنی گنہگار، نافرمان) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3733]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(عاصية)
کا مطلب ”نافرمان“ ہے۔
مسلمان فرماں بردار ہوتا ہے، اس لیے یہ نام ناپسندیدہ ہے۔
فرعون کی مومن بیوی کا نام حضرت ”آسیہ“ تھا۔
یہ نام رکھنا جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3733
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5604
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ (نافرمان) نام بدل کر فرمایا: ”تم جمیلہ ہو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5604]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین قسم کے ناموں سے روکا ہے (1)
جن کا معنی ناپسندیدہ ہے،
جیسے عاصیہ،
یعنی نافرمان،
حالانکہ ایک مسلمان کے لیے نافرمانی زیبا نہیں ہے،
چہ جائیکہ کہ اس کا نام نافرمان رکھ دیا جائے۔
(2)
جن ناموں سے بدشگونی کا اندیشہ ہے،
جبکہ بدشگونی جائز نہیں ہے،
جیسے افلح،
نجیح اور یسار وغیرہ۔
(3)
جن میں اپنا تزکیہ اور صفائی پیش کی گئی ہے،
جیسے برہ،
وفادار،
اطاعت گزار،
اگرچہ یہ دوسری قسم میں بھی داخل ہے اور اس سے بدشگونی کا اندیشہ ہے یعنی نفی کی صورت میں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5604