سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
37. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ رَدِّ الطِّيبِ
باب: خوشبو واپس کر دینا ناپسندیدہ اور مکروہ کام ہے۔
حدیث نمبر: 2789
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ أَنَسٌ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ، وَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ثمامہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ انس رضی الله عنہ خوشبو
(کی چیز) واپس نہیں کرتے تھے، اور انس رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو کو واپس نہ کرتے تھے
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الہبة 9 (2582)، واللباس 80 (5929)، سنن النسائی/الزینة 74 (5260) (تحفة الأشراف: 7453) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ اگر خوشبو جیسی چیز آتی تو آپ اسے بھی واپس نہیں کرتے تھے، اس لیے سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ہدیہ کی ہوئی خوشبو کو واپس نہیں کرنا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (186)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2789 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2789
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی آپ ﷺ کے پاس ہدیہ اگر خوشبو جیسی چیز آتی تو آپ اسے بھی واپس نہیں کرتے تھے،
اس لیے سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ہدیہ کی ہوئی خوشبو کو واپس نہیں کرنا چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2789
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5260
´خوشبو کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی خوشبو لائی گئی، آپ نے اسے لوٹایا نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5260]
اردو حاشہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خوشبو استعمال کرنا پسندیدہ عمل ہے نیز کوئی شخص خوشبو کا ہدیہ دے تو اسے قبول کر لینا چاہیے رد نہیں کرنا چاہیے۔ ایک دوسری حدیث میں خوشبو کےساتھ دو اور چیزوں کا بھی ذکر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [ثلاث لا ترد: الوسائد والدهن واللبن ] الدهن: يعنى به الطيب] (جامع الترمذى، الأدب،حديث:2790)”تین چیزوں ایسی ہیں کہ (کسی کو ہدیتاً دی جائیں تو) وہ ردنہ کی جائیں: سرہانہ و تکیہ (گدوغالیچہ) تیل اور دودھ۔ “ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ تیل سے مراد خوشبو ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کو خوشبو سے خصوصی لگاؤ تھا کیونکہ آپ کے پاس فرشتوں کا آنا جانا رہتا تھا فرشتے بدبو سے نفرت کرتے ہیں اس لیے رسول اللہﷺ ہر وقت بہترین خوشبو سےمعطر رہتے تھے۔ خود آپ کا جسم مبارک بھی ذاتی طور پر خوشبو دار تھا۔ فداء ابی ونفسی وروحی ﷺ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5260
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2582
2582. عزرہ بن ثابت انصاری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ثمامہ بن عبداللہ کے پاس گیا تو انھوں نے مجھے خوشبو کا تحفہ دیا اور کہا کہ حضرت انس ؓ خوشبو رد نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے حضرت انس ؓ کے حوالے سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بھی خوشبو واپس نہیں کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2582]
حدیث حاشیہ:
(1)
جامع ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تین چیزیں واپس نہ کی جائیں:
تکیہ، تیل اور دودھ۔
“ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث: 2790)
امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے مذکورہ حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حدیث میں تیل سے مراد خوشبو ہے۔
آپ نے اسے واپس نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ اس کے دینے میں آسانی اور اس کا فائدہ بھی زیادہ ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”خوشبو کا اپنے پاس رکھنا آسان اور اس کی مہک بہترین اور عمدہ ہوتی ہے۔
“ (صحیح مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، حدیث: 5883(2253)
لیکن اس روایت میں طیب کے بجائے "ریحان" کے الفاظ ہیں۔
بہرحال لفظ طیب محفوظ اور زیادہ قرین قیاس ہے۔
(فتح الباري: 258/5) (2)
خوشبو اگرچہ معمولی چیز ہے، تاہم اسے واپس کرنے سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس نہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی بات پر بڑا نقصان کر لیا جائے، نیز یہ بات دلداری اور حوصلہ افزائی کے بھی خلاف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5929
5929. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ خوشبو کو رد نہیں کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ نبی ﷺ بھی خوشبو کو رد نہیں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5929]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی شخص خوشبو کا تحفہ پیش کرتا تو آپ اسے خوشی سے قبول کرتے اور اسے رد نہ کرتے تھے کیونکہ آپ کو اس کی ہمیشہ ضرورت رہتی تھی۔
آپ فرشتوں سے سرگوشی کرتے تھے، ایسے حالات میں آپ کا صاف ستھرا اور پاک رہنا انتہائی ضروری تھا۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جسے خوشبو پیش کی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے کیونکہ اس کی مہک عمدہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا۔
“ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4172) (2)
خوشبودار پھول یا عطر کوئی بڑا بھاری بوجھ نہیں ہوتا جو ناقابل برداشت ہو اور کوئی اتنا بڑا احسان بھی نہیں ہوتا کہ اس کا عوض دینا مشکل ہو یا اس کا عوض نہ دینے سے کوئی شکوہ کرے تو ایسی چیز کو رد کیوں کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5929