سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
18. باب مَا جَاءَ فِي إِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ
باب: داڑھی بڑھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2764
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَنَا بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ هُوَ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ ثِقَةٌ، وَعُمَرُ بْنُ نَافِعٍ ثِقَةٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يُضَعَّفُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مونچھیں کٹوانے اور ڈاڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کے آزاد کردہ غلام ابوبکر بن نافع ثقہ آدمی ہیں،
۳- عمر بن نافع یہ بھی ثقہ ہیں،
۴- عبداللہ بن نافع ابن عمر رضی الله عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں اور حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخاتم 16 (4199) (تحفة الأشراف: 8542)، وط/الشعر 1 (1) وانظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس حدیث کو روایت کرنے والے ابن عمر رضی الله عنہما جن کی سمجھ کی داد خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، اور جو اتباع سنت میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بیٹھا کر پیشاب کیا تھا وہاں آپ بلا ضرورت بھی اقتداء میں بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے تو یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ آپ جو ایک مٹھی سے زیادہ اپنی داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے؟ بات یہ نہیں ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کا یہ فعل حدیث کے خلاف نہیں ہے، «توفیر» اور «اعفاء» کا مطلب ایک مٹھی سے زیادہ کاٹنے پر بھی حاصل ہو جاتا ہے، آپ از حد متبع سنت صحابی ہیں نیز عربی زبان کے جانکار ہیں، آپ سے زیادہ فرمان رسول کو کون سمجھ سکتا ہے؟ اور کون اتباع کر سکتا ہے؟۔ اس لیے جو اہل علم داڑھی کو ایک قبضہ کے بعد کاٹنے کا فتوی دیتے ہیں ان کی بات میں وزن ہے اور یہ ان مسائل میں سے ہے جس میں علماء کا اختلاف قوی اور معتبر ہے، «واللہ اعلم» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ص انظر ما قبله (2763)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2764 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2764
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس حدیث کو روایت کرنے والے ابن عمر رضی اللہ عنہما جن کی سمجھ کی داد خود نبی اکرمﷺ نے دی ہے،
اورجو اتباع سنت میں اس حد تک بڑھے ہوے تھے کہ جہاں نبی اکرمﷺ نے اونٹ بیٹھا کر پیشاب کیا تھا وہاں آپﷺ بلاضرورت بھی اقتداء میں بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے تو یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ آپ جو ایک مٹھی سے زیادہ اپنی داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے یہ فرمانِ رسولﷺ کی مخالفت ہے؟ بات یہ نہیں ہے،
بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن عمر کا یہ فعل حدیث کے خلاف نہیں ہے،
(توفیر) اور (اعفاء) کا مطلب ایک مٹھی سے زیادہ کاٹنے پر بھی حاصل ہو جاتا ہے،
آپ از حد متبع سنت صحابی ہیں نیز عربی زبان کے جانکار ہیں،
آپ سے زیادہ فرمان رسول کو کون سمجھ سکتا ہے؟ اورکون اتباع کر سکتا ہے؟۔
اس لیے جو اہل علم داڑھی کو ایک قبضہ کے بعد کاٹنے کا فتوی دیتے ہیں ان کی بات میں وزن ہے اوریہ ان مسائل میں سے ہے جس میں علماء کا اختلاف قوی اورمعتبر ہے،
واللہ اعلم۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2764
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5893
´ داڑھی کا چھوڑ دینا `
«. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْهَكُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں خوب کتروا لیا کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/بَابُ إِعْفَاءِ اللِّحَى: 5893]
تخريج الحديث:
[147۔ البخاري فى: 77 كتاب اللباس: 65 باب إعفاء اللحي 5893]
لغوی توضیح:
«اَنْهِكُوْا» مبالغے سے مونچھیں پست کرنا۔
«اَعْفُوْا» معاف کر دو، یعنی انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دو۔
فھم الحدیث:
پہلی روایت میں پانچ فطری امور کا ذکر ہے جبکہ ایک دوسری روایت میں دس امور کا ذکر ہے، جس میں مسواک، داڑھی کو صاف کرنے، کلی کرنے، استنجاء کرنے اور انگلیوں کے جوڑوں کو دھونے کا اضافہ ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان 261، أبوداؤد 53، ترمذي 2757، ابن ماجه 293]
علاوہ ازیں درج بالا دوسری اور تیسری روایت میں مونچھیں پست کرنے اور داڑھی کو معاف کرنے کا تاکیدی حکم ہے، جس کی پابندی کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ داڑھی منڈوانا حرام ہے۔ [مجموع فتاويٰ و رسائل ابن عثيمين 81/11]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 147
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 15
´مونچھ کو خوب کترنے اور داڑھیوں کو چھوڑ دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مونچھوں کو خوب کترو ۱؎، اور داڑھیوں کو چھوڑے رکھو“ ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 15]
15۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں «أَحْفُوا الشَّوَارِبَ» ”مونچھیں خوب منڈاؤ“ کے الفاظ ہیں، جب کہ اس سے پہلی روایات میں کاٹنے کا ذکر ہے، گویا یہاں مبالغہ مقصود ہے، ورنہ مراد کاٹنا ہی ہے۔ یہ بھی کہا: جا سکتا ہے کہ دونوں طریقے جائز ہیں۔ اگرچہ امام مالک رحمہ اللہ نے مونچھیں مونڈنے کو ناپسند کیا ہے کہ اس سے مرد کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے، نیز اس میں عورت سے مشابہت ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے اس استدلال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، خصوصاً جب کہ مذکورہ تطبیق ممکن ہے۔
➋ ڈاڑھی رکھنے یا بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مونچھوں کی طرح کاٹا نہ جائے کیونکہ ڈاڑھی مرد کی خصوصیت ہے اور اسے مونڈنا یا کاٹنا عورت کی مشابہت ہے اور یہ حرام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 15
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5228
´مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مونچھیں کاٹو اور داڑھی بڑھاؤ۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5228]
اردو حاشہ:
دیکھیے حدیث: 15
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5228
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 600
حضرت ابنِ عمر ؓ سے مرفوع روایت ہے، کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مونچھیں خوب کترو اور داڑھی بڑھاؤ۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:600]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
أَحْفُوا:
اچھی طرح زائل کرنا،
مونچھیں خوب،
اچھی طرح تراشنی چاہئیں۔
(2)
أَعْفُوا اللِّحَى:
اعفاء ترک کرنے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں،
اور "لِحَى" "لِحْيَةٌ" کی جمع ہے۔
(رخساروں اور ٹھوڑی کے بال)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 600
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 601
”ہمیں مونچھیں اچھی طرح ترشوانے، اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:601]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
داڑھی کو پورا چھوڑو،
کیونکہ "أوْفٰی النَّذْر" کا معنی ہے،
نذر پوری کی۔
أوْفٰی بِالْوَعْدِ:
وعدہ پورا کیا۔
أوْفٰی الْكَيْلَ:
پیمانہ پورا ناپا۔
أوْفٰی فُلَانًا حَقَّهُ:
اس کا حق پورا دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 601
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5893
5893. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مونچھیں پست کراؤ اور ڈاڑھی خوب بڑھاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5893]
حدیث حاشیہ:
داڑھی رکھنا تمام انبیاءکرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
مبارک باد ہیں جو لوگ اپنا حلیہ سنت نبوی کے مطابق بنائیں۔
آج کی دنیا میں مردوں کو داڑھی سے اس قدر نفرت ہو گئی ہے کہ بیشتر تعداد میں یہی عادت جڑ پکڑ چکی ہے حالانکہ حکمت اور سائنس کی رو سے بھی مردوں کے لیے داڑھی کا رکھنا بہت ہی مفید ہے۔
کتب متعلقہ ملاحظہ ہوں۔
مومنوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے محبوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5893
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5893
5893. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مونچھیں پست کراؤ اور ڈاڑھی خوب بڑھاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5893]
حدیث حاشیہ:
(1)
داڑھی بڑھانے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں:
مثلاً:
وفروا، أوفروا، أعفوا، أرجئو اور أوفوا۔
ان کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تمام الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔
(شرح صحیح مسلم للنووي: 129/1)
داڑھی شعائر اسلام سے ہے جس سے ایک مسلمان کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، مثلاً:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بڑھانے کے متعلق حکم دیا ہے آپ کا حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ پایا جائے۔
٭ اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کو یہودونصاریٰ اور مشرکین و مجوس سے ہم نوائی قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے:
٭ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کراؤ۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5892)
٭ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو، اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں چھوٹی کرو۔
(مسند أحمد: 264/5)
٭ مجوسی لوگوں کی مخالفت کرو، داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑو اور مونچھیں پست کراؤ۔
(صحیح ابن حبان: 408/1)
٭ شیطان کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو خلقتِ الٰہیہ میں تبدیلی پر آمادہ کرتا ہے۔
(النساء: 114)
داڑھی سے چھیڑچھاڑ کرنا تخلیق الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔
٭ داڑھی کا بڑھانا امور فطرت سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 604 (261)
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ اسے فطرت پر رہنے دیا جائے، اس میں کانٹ چھانٹ کر کے غیر فطری عمل نہ کیا جائے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا جبکہ داڑھی منڈوانے سے عورتوں کی مشابہت ہوتی ہے۔
اس سے محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر رہنے دیا جائے۔
(3)
داڑھی منڈوانا ایک برا کام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو ایرانی باشندوں کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جنہوں نے داڑھی منڈوا رکھی تھی۔
(4)
داڑھی رکھنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے۔
ان حضرات کے جتنے بھی پیروکار ہیں ان میں سے کوئی بھی داڑھی منڈوانے والا نہیں۔
(5)
گناہ کرتے وقت ہر انسان اپنے اندر ایک اذیت محسوس کرتا ہے لیکن داڑھی کی مخالفت ایسا جرم ہے کہ اس کے کرنے پر انسان خوش ہوتا ہے اور اسے اپنے لیے باعث زینت خیال کرتا ہے، اس سے بڑھ کر اس کی توہین کیا ہو سکتی ہے کہ داڑھی منڈوانے والا ان مقدس بالوں کو گندی نالی میں پھینک دیتا ہے۔
(6)
مندرجہ بالا امور کے پیش نظر ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ داڑھی کے بغیر رہے اور اسے منڈوا کر اپنے دشمن شیطان کو خوش کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کے نبوی حکم سے ایک صورت مستثنیٰ ہے کہ جب عورت کو داڑھی کے بال نکل آئیں تو اسے منڈوانا مستحب ہے، اسی طرح اگر داڑھی بچہ یا مونچھیں اگ آئیں تو انہیں بھی صاف کرا دیا جائے۔
(فتح الباري: 431/10) (7)
کچھ اہل علم داڑھی کاٹنے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
وہ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کے طول و عرض سے زائد بال لے لیتے تھے۔
(جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2762)
اس کے متعلق حافظ ابن حجر، امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور اس میں ایک راوی عمر بن ہارون ہے جسے مطلق طور پر ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(کتاب میں حوالہ موجود نہیں)
اسی طرح حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ حضرات عام طور پر یا خاص مواقع پر ایک مٹھی سے زائد داڑھی اور رخساروں کے بال کٹوا دیتے تھے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری حدیث: 5892 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے طبقات ابن سعد: 4/334 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ: 4/85 میں اس قسم کی روایات موجود ہیں، حالانکہ ان تینوں حضرات سے داڑھی بڑھانے کے متعلق امر نبوی بھی منقول ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری، حدیث: 5892، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم، الطہارۃ، حدیث: 603 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مجمع الزوائد: 5/169 میں روایات آئی ہیں۔
اس بنا پر ہمارے نزدیک قابل عمل ان حضرات کی روایت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہے۔
بہرحال کانٹ چھانٹ کے بغیر پوری داڑھی رکھنا تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔
مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنا حلیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رکھتے ہیں اور اس فطرتی حسن سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5893