سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
17. باب مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ
باب: داڑھی کے بال (طول و عرض سے) لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2762
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا "، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ: مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، أَوْ قَالَ: يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا " لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَكَانَ يَقُولُ: الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ قُتَيْبَةُ: قُلْتُ لِوَكِيعٍ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی لمبائی اور چوڑائی سے لیا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں
(یعنی بخاری کو عمر بن ہارون) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے،
۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے،
۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے
(اپنے استاد) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟
(جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں
۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8662) (موضوع) (سند میں ”عمر بن ہارون ابو جوین العبدی“ متروک الحدیث ہے)»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی نے وکیع بن جراح کے واسطہ سے جو حدیث منجنیق روایت کی ہے، تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وکیع بن جراح جیسے ثقہ راوی نے عمر بن ہارون سے روایت کی ہے، گویا عمر بن ہارون کی توثیق مقصود ہے۔
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (288) // ضعيف الجامع الصغير (4517) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2762) إسناده ضعيف جدًا
عمر بن هارون: متروك وكان حا فظًا (تق: 4979) وقال الهيثمي: ضعفه أكثر الناس (مجمع الزوائد 273/1) وحديث: نصب المجانيق على أهل الطائف أيضًا ضعيف جدًا من أجل عمر بن هارون هذا
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2762 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2762
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
امام ترمذی نے وکیع بن جراح کے واسطہ سے جو حدیث منجنیق روایت کی ہے،
تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وکیع بن جراح جیسے ثقہ راوی نے عمر بن ہارون سے روایت کی ہے،
گویا عمربن ہارون کی توثیق مقصود ہے۔
نوٹ:
(سند میں ”عمر بن ہارون ابوجوین العبدی“ متروک الحدیث ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2762
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1102
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی۔ اسے ابوداؤد نے اپنی مراسیل میں تخریج کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں مگر عقیل نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند کے ساتھ موصول قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1102»
تخریج: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:335، بإسناد صحيح عنه، وحديث علي: أخرجه العقيلي في الضعفاء:2 /244، وسنده ضعيف جدًا. فيه عبدالله بن خراش منكر الحديث، وللحديث شواهد مرسلة عند البيهقي:9 /84، والترمذي، الأدب، حديث:2762 ب وغيرهما.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم دشمن کو نیست و نابود کرنے یا ان کا زور توڑنے اور عسکری قوت کمزور کرنے کے لیے نئے نئے طریقہ ہائے جنگ اور جدید سامان حرب و ضرب استعمال کرنے چاہئیں اور مسلمانوں کو سامان حرب نئے سے نئے ایجاد کرنے چاہئیں۔
2. آج کے دور میں ایٹم بم اور دیگر تباہ کن اور ہیبت ناک ہتھیار بھی تیار کرنے چاہئیں تاکہ دشمن پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہو۔
راویٔ حدیث: «حضرت مکحول رحمہ اللہ» دمشق کے باشندے اور شام کے فقیہ تھے۔
کبار ائمہ میں سے تھے۔
ابوحاتم کا قول ہے کہ شام میں ان سے بڑا فقیہ میرے علم میں نہیں ہوا۔
انھوں نے ۱۱۳ ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1102