سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
5. باب مَا جَاءَ كَمْ يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ
باب: چھینکنے والے کا جواب کتنی بار دیا جائے؟
حدیث نمبر: 2744
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا، فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ.
عبید بن رفاعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند مجہول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 100 (5036) (تحفة الأشراف: 9746) (ضعیف) (سند میں ”یزید بن عبد الرحمن ابو خالدالدالانی“ بہت غلطیاں کر جاتے تھے، اور ”عمر بن اسحاق بن ابی طلحہ“ اور ان کی ماں ”حمیدہ یا عبیدہ“ دونوں مجہول ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4830) // ضعيف الجامع الصغير (3407) ، ضعيف أبي داود (1068 / 5036) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2744) إسناده ضعيف / د 5036
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2744 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2744
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں ”یزید بن عبد الرحمن ابوخالدالدالاني“ بہت غلطیاں کرجاتے تھے،
اور ""عمر بن إسحاق بن أبي طلحة“ اور ان کی ماں ''حمیدہ یا عبیدہ'' دونوں مجہول ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2744