Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
12. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے احادیث لکھنے کی اجازت۔
حدیث نمبر: 2668
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ وَهُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: " لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَوَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ عَنْ أَخِيهِ هُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ.
ہمام بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سوائے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے اور میرے اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کے درمیان یہ فرق تھا کہ وہ (احادیث) لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور روایت میں «وهب بن منبه، عن أخيه» جو آیا، تو «أخيه» سے مراد ہمام بن منبہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 39 (113) (تحفة الأشراف: 14800) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ابوہریرہ بن عبدالرحمٰن بن صخر رضی الله عنہ کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی تھی کہ آپ کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے علم میں خیر و برکت کی دعا تھی جس سے آپ رضی الله عنہ کا سینہ بذات خود حفظ و تحفیظ کا دفتر بنا گیا تھا، امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیرأعلام النبلاء (الجزء الثانی ص ۵۹۴ اور ۵۹۵) میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے درج کیا ہے: «كان حفظ أبي هريرة رضي الله عنه الخارق من معجزات النبوة...» ابوہریرہ رضی الله عنہ کا حافظ … احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ اور قرآن کو یاد کر لینے کا ملکہ … نبوت کے معجزات میں سے خرق عادت ایک معجزہ تھا، اور پھر اس عبارت کو بطور عنوان اختیار کر کے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابونعیم کی «الحلیة» میں درج احادیث کو نقل کیا ہے، اور اس پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے «رجالہ ثقات» ان احادیث میں سے ایک یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ سے پوچھا: ابوہریرہ! غنیمتوں کے اموال میں سے تم مجھ سے کچھ نہیں مانگتے جن میں سے تیرے ساتھی مانگتے رہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: «أسألك أن تعلمني مما علمك الله» میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن و سنت والا علم سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے (جتنا زیادہ ممکن ہو) سکھا دیجئیے، تو میری اس درخواست پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر والی سفید اور کالی دھار یوں والی چادر کو مجھ سے اتار لیا اور اسے ہمارے دونوں کے درمیان پھیلا دیا، اس قدر خوب تن کر اس چادر کو پھیلایا گویا میں اس پر چلنے والی چیونٹی کو بھی صاف دیکھ رہا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے احادیث بیان کرنا شروع فرما دیں حتیٰ کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حدیث مبارکہ حاصل کر لی تو آپ نے فرمایا: «إجمحها فصرها إليك» اس چادر کو اکٹھی کر کے اپنی طرف پلٹا لو، (یعنی اپنے اوپر اوڑھ لو۔) چنانچہ میں نے ایسا کر لیا اور پھر تو میں حافظے کے اعتبار سے ایسا ہو گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی اپنی حدیث مبارک مجھ سے بیان فرماتے اس سے ایک حرف بھی مجھ سے ساقط نہیں ہوتا تھا، ابوہریرہ رضی الله عنہ کے الفاظ «فاصبحت لا أسقط حرفا حدثنی» (دیکھئیے: الحلۃ: ۱/۳۸۱) بالکل اسی معنی کی احادیث صحیح البخاری / کتاب البیوع اور کتاب الحرث والمزرعۃ حدیث ۲۳۵۰ اور صحیح مسلم / کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی ہریرۃ رضی الله عنہ الدوسی حدیث ۲۴۹۲ میں بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے «مجموعة الوقائق السیاسیة للعہدالنبوی والخلافة الراشدة» میں ثابت کیا ہے کہ جناب ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کے ہاتھ کا مخطوطہٰ احادیث آج بھی دنیا کی ایک معروف لائبریری میں موجود ہے، اور پھر اس مخطوطہٰ کو حیدرآباد دکن سے شائع بھی کیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2668 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2668  
اردو حاشہ:
1؎:
ابوہریرہ بن عبدالرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی تھی کہ آپ کے لیے نبی اکرمﷺ کی آپ کے علم میں خیر وبرکت کی دُعا تھی جس سے آپ رضی اللہ عنہ کا سینہ بذات خود حفظ وتحفیظ کا دفتر بن گیا تھا،
امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیرأعلام النبلاء (الجزء الثانی ص 594 اور595) میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے درج کیا ہے: (كان حفظ أبي هريرة رضي الله عنه الخارق من معجزات النبوة...) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظ ...احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ اور قرآن کو یاد کر لینے کا ملکہ ...نبوت کے معجزات میں سے خرقِ عادت ایک معجزہ تھا،
اور پھر اس عبارت کو بطور عنوان اختیار کر کے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابونعیم کی (الحلیة) میں درج احادیث کو نقل کیا ہے،
اور اس پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے (رجاله ثقات) ان احادیث میں سے ایک یوں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابوہریرہ سے پوچھا:
ابوہریرہ! غنیمتوں کے اموال میں سے تم مجھ سے کچھ نہیں مانگتے جن میں سے تیرے ساتھی مانگتے رہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: (أَسْأَلُكَ أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عَلَّمَكَ الله) میں تو آپ ﷺسے صرف اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اللہ نے آپ ﷺ کو قرآن وسنت والا علم سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے (جتنا زیادہ ممکن ہو) سکھا دیجئے،
تو میری اس درخواست پر نبی اکرمﷺ نے میرے اُوپر والی سفید اور کالی دھاریوں والی چادر کو مجھ سے اُتار لیا اور اسے ہمارے دونوں کے درمیان پھیلا دیا،
اس قدر خوب تن کر اس چادر کو پھیلایا گویا میں اس پر چلنے والی چیونٹی کو بھی صاف دیکھ رہا تھا،
پس آپﷺ نے مجھ سے احادیث بیان کرنا شروع فرما دیں حتی کہ جب میں نے آپﷺ کی پوری حدیث مبارکہ حاصل کرلی تو آپﷺ نے فرمایا: (إجمحها فصرها إليك) اس چادر كو اکٹھی کر کے اپنی طرف پلٹا لو،
(یعنی اپنے اُوپر اوڑھ لو۔
)
چنانچہ میں نے ایسا کر لیا اور پھرتو میں حافظے کے اعتبارسے ایسا ہو گیا کہ نبی اکرمﷺجو بھی اپنی حدیث مبارک مجھ سے بیان فرماتے اس سے ایک حرف بھی مجھ سے ساقط نہیں ہوتا تھا،
(ابوہریرہ کے الفاظ (فَاَصْبَحْتُ لَاأَسقط حَرْفًا حَدَّثَنِی) (دیکھئے:
الحلة: 1/381)
 بالکل اسی معنی کی احادیث صحیح البخاري/ کتاب البیوع اور کتاب الحرث والمزرعة حدیث: 2350 اور صحیح مسلم/کتاب فضائل الصحابة،
باب من فضائل ابی ہریرۃ رضی اللہ عنه الدوسي حدیث 2492 میں بھی ہیں۔
ڈاکٹرمحمد حمیداللہ نے (مجموعة الوقائق السیاسیة للعہدالنبوي والخلافة الراشدة) میں ثابت کیا ہے کہ جناب ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کے ہاتھ کا مخطوطہ احادیث آج بھی دنیا کی ایک معروف لائبریری میں موجود ہے،
اور پھراس مخطوطہ کو حیدرآباد دکن سے شائع بھی کیا گیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2668