Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
12. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے احادیث لکھنے کی اجازت۔
حدیث نمبر: 2667
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو شَاهٍ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ " , وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور دوران خطبہ آپ نے کوئی قصہ (کوئی واقعہ) بیان کیا تو ابو شاہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیجئیے (یعنی کسی سے لکھا دیجئیے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) کہا ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔ حدیث میں پورا واقعہ مذکور ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر تخریج حدیث رقم 1405 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث نہ لکھنے کا حکم بعد میں منسوخ ہو گیا گویا یہ حدیث اللہ کے رسول کی احادیث لکھ لینے کے جواز پر صریح دلیل ہے۔ اسی طرح درج ذیل حدیث اور احادیث کی کتب میں درج بیسویں احادیث مبارکہ منکرین حدیث پر روزِ روشن کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کتابت حدیث کا مبارک عمل نبی ختم الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ہو گیا تھا اور یہ کہ ہماری تحقیق کے مطابق ساداتنا عبداللہ بن عمرو بن العاص، وائل بن حجر، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن ابی اوفی، عبداللہ بن عباس، انس بن مالک اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سمیت بیس صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین ایسے اصحاب واجبات تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارک کو لکھا، ان اصحاب کی لکھی ہوئی احادیث کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے، اور پھر ابوہریرہ رضی الله عنہ جیسے جو اصحاب لکھ نہیں سکتے تھے اپنے ہاتھوں بلکہ انہوں نے احادیث مبارکہ کو لفظ بلفظ یاد رکھا اور پھر یہی احادیث اپنے شاگردوں کو لکھوا دیں ان کی تعداد مزید کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے، اور ہمارے اندازے کے مطابق کتب احادیث میں موجود تمام احادیث کا ایک بڑا حصہ عہد صحابہ میں لکھا جا چکا تھا، (مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب مقدمۃ الحدیث کی پہلی جلد میں پہلے باب اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ خاں کی «الوثائق السیاسیة فی عہد…» کا مطالعہ کریں، ابویحییٰ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2667 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2667  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث نہ لکھنے کا حکم بعد میں منسوخ ہو گیا گویا یہ حدیث اللہ کے رسول کی احادیث لکھ لینے کے جواز پر صریح دلیل ہے۔
اسی طرح درج ذیل حدیث اوراحادیث کی کتب میں درج بیسویں احادیث مبارکہ منکرین حدیث پر روزِ روشن کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کتابت حدیث کا مبارک عمل نبی ختم الرسل محمدرسول اللہﷺکی حیات طیبہ میں ہی ہو گیا تھا اور یہ کہ ہماری تحقیق کے مطابق ساداتنا عبداللہ بن عمروبن العاص،
وائل بن حجر،
سعدبن عبادہ،
عبداللہ بن ابی اوفی،
عبداللہ بن عباس،
انس بن مالک اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سمیت بیس صحابہ کرام ؓ ایسے اصحاب واحبات تھے کہ جنہوں نے رسول اللہﷺکی احادیث مبارک کولکھا،
ان اصحاب کی لکھی ہوئی احادیث کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے،
اور پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے جو اصحاب لکھ نہیں سکتے تھے اپنے ہاتھوں بلکہ انہوں نے احادیث مبارکہ کو لفظ بلفظ یاد رکھا اور پھر یہی احادیث اپنے شاگردوں کو لکھوا دیں اُن کی تعداد مزید کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے،
اور ہمارے اندازے کے مطابق کتب احادیث میں موجود تمام احادیث کا ایک بڑا حصہ عہد صحابہ میں لکھا جا چکا تھا،
(مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب مقدمة الحدیث کی پہلی جلد میں پہلے باب اور ڈاکٹرمحمد حمیداللہ خاں کی الوثائق السیاسیة فی عهد... کا مطالعہ کریں،
ابویحیی)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2667