Note: Copy Text and to word file

سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
11. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كِتَابَةِ الْعِلْمِ
باب: (ابتدائے اسلام میں) احادیث لکھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2665
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، رَوَاهُ هَمَّامٌ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (ابتداء اسلام میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم (حدیث) لکھ لینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ہمیں لکھنے کی اجازت نہ دی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی زید بن اسلم کے واسطہ سے آئی ہے، اور اسے ہمام نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 16 (3004) (بلفظ ”لاتکتبوا عني، ومن کتب عني غیر القرآن فلیمحہ“) (تحفة الأشراف: 4167) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا: «لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج» (صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو، اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹا دے، البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان: «بلغوا عني ولو آية» کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا: «لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج» (صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو، اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹا دے، البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان: «بلغوا عني ولو آية» کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2665 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2665  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا: (لَا تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآن فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَج (صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو،
اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹا دے،
البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
پھر بعد میں آپ ﷺ نے اپنے فرمان: (بَلِّغُوْا عَنِّي وَلَوْ آيَة) کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2665