Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایمان و اسلام
7. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الإِيمَانِ
باب: حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔
حدیث نمبر: 2615
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ " , قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبِي بَكْرَةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیاء (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کر رہا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور تاکید) فرمایا: حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- احمد بن منیع نے اپنی روایت میں کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حیاء کے بارے میں اپنے بھائی کو پھٹکارتے ہوئے سنا،
۳- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 16 (24)، والأدب 77 (6118)، صحیح مسلم/الإیمان 12 (36)، سنن ابی داود/ الأدب 7 (4795)، سنن النسائی/الإیمان 27 (5036)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (58) (تحفة الأشراف: 6828)، وط/حسن الخلق 2 (10)، و مسند احمد (2/56، 147) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے حیاء کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے، ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیاء سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے، کیونکہ حیاء انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (58)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2615 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2615  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے حیا کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے،
ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیا سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے،
کیوں کہ حیا انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2615   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 24  
´شرم و حیاء بھی ایمان سے ہے`
«. . . عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ . . .»
. . . سالم بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیاء بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ الْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ:: 24]
تشریح:
بخاری کتاب الادب میں یہی روایت ابن شہاب سے آئی ہے۔ اس میں لفظ «يعظ» کی جگہ «يعاتب» ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انصاری اس کو اس بارے میں عتاب کر رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا اسے اس کی حالت پر رہنے دو۔ حیا ایمان ہی کا حصہ ہے۔

حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے۔ حرام امور میں حیا کرنا واجب ہے اور مکروہات میں بھی حیا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ «الحياءلاياتي الابخير» کا یہی مطلب ہے کہ حیا خیر ہی خیر لاتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے۔ «خف الله على قدرته عليك واستحي منه على قدرته قربه منك۔» اللہ کا خوف پیدا کرو اس اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا خوف پورے طور پر ہو کہ تمہارے اوپر اپنی قدرت کامل رکھتا ہے جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے تم کو پکڑے اور اس سے شرم و حیا بھی اس خیال سے ہونی چاہئیے کہ وہ تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

الغرض حیا اور شرم انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے اور اس کے طفیل وہ بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حیا سے مراد وہ بے جا شرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرات عمل ہی مفقود ہو جائے۔ وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم و حیا کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حضرت امام المحدثین اس حدیث کی نقل سے بھی مرجیہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو ایمان کو صرف قول بلاعمل مانتے ہیں۔ حالانکہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیں جملہ اعمال صالحہ و عادات سیئہ کو ایمان ہی کے اجزا قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث بالاسے ظاہر ہے کہ حیا شرم جیسی پاکیزہ عادت بھی ایمان میں داخل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1319  
حیا ایمان ہے
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏الحياء من الإيمان ‏‏‏‏ متفق عليه.»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا ایمان ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1319]
تخریج:
[بخاري 24]،
[ مسلم الايمان/373]،
[تحفته الاشراف 388/5] [373/5] [429/9] [42/9] [9/11] [16/11] [11/11]

مفردات:
«اَلْحَيَاءُ» شرم، طبیعت کا کسی کام سے اس لیے رک جانا کہ اسے کرنے سے مذمت کا یا عیب لگنے کا خطرہ ہو یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے ورنہ وہ بھی جانوروں کی طرح جو بھی دل میں آتا کر گزرتا۔ شرع میں حیا ایک ایسی عادت کو کہتے ہیں جو آدمی کو قبیح کام سے بچنے اور حق والوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچنے پر آمادہ رکھتی ہے۔

فوائد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقعہ پر یہ الفاظ کہے؟
صحیح بخاری میں مکمل حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«دعه فان الحياء من الايمان»
اسے رہنے دو کیونکہ حیا ایمان سے ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب الادب المفرد میں ہے «يعاتب اخاه» اپنے بھائی پر ناراض ہو رہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھائی حیا کی وجہ سے لوگوں سے اپنے حقوق بھی پوری طرح وصول نہیں کر سکتا تھا تو اس کے بھائی نے اسے نصیحت کی اور ناراض بھی ہوا کہ تم حیا کی وجہ سے اپنا نقصان کر رہے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رہنے دو کیونکہ حیا ایمان سے ہے یعنی اگر حیا کی وجہ سے یہ اپنا کوئی حق وصول نہ کر سکا تو وہ حق اس کے لیے اجر کا باعث ہو گا۔ بعض احادیث میں آیا ہے:
«الحياء كله خير» ‏‏‏‏
حیا ساری کی ساری خیر ہے۔
اور:
«الحياء لا ياتي الا بخير»
حیا خیر کے علاوہ کچھ نہیں لاتی۔

حیا ایمان سے کس طرح ہے؟
بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ حیا آدمی کو برائی سے روک دیتی ہے جس طرح ایمان بندے کے لیے گناہ سے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس مشابہت سے اسے ایمان کہا گیا۔ لیکن اس تفسیر کی رو سے حیا ایمان کا مشابہ قرار پاتی ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ایمان سے ہے۔
اس لیے اس کا معنی دوسری حدیث کو مدنظر رکھ کر کریں تو بہتر ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الايمان بضع وستون شعبة والحياء شعبة من الايمان» [صحيح بخاري ح9]
ایمان ساٹھ سے زائد شاخوں کا نام ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کلمہ، نماز، روزہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دوسری چیزیں ایمان کا حصہ ہیں اسی طرح حیا بھی ایمان کے درخت کی ایک شاخ اور اس کا حصہ ہے۔
«الحياء من الايمان» کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے بھائی کی یہ حیا ایمان کا نتیجہ ہے اور اس میں یہ خوبی ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

حیا کی قسمیں:
اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ان سے رکنا حیا ہے۔ عقلاً جو چیزیں ناپسندیدہ ہیں ان سے رکنا حیا ہے اور لوگ جن چیزوں کو برا جانتے ہوں ان سے رکنا بھی حیا ہے، مگر اصل حیا اللّٰہ اور اس کے رسول کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب ہے۔ بعض لوگ کئی نیکی کے کام نہیں کرتے مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کہتے ہیں ہمیں حیا آتی ہے لیکن یہ حیا نہیں بزدلی ہے، حیا ناپسندیدہ کام سے اجتناب ہے نیکی سے اجتناب حیا نہیں۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 245   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5036  
´شرم و حیا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا، جو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، (یعنی اس کو یہ نصیحت کرنی چھوڑ دو) شرم و حیاء تو ایمان میں داخل ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5036]
اردو حاشہ:
(1) حیا عظیم الشان اور اعلیٰ صفات حمیدہ میں سے ایک عظیم صفت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیئے کہ آپ کو ہر وقت زیور حیا سے آراستہ رکھے۔حیا کی بابت بہت احادیث میں تر غیب منقول ہے۔
(2) ڈانٹ رہاتھا کہ تواس قدر حیا کرتا ہے کہ اپنا حق بھی نہیں مانگ سکتا۔
(3) رہنے دے کیونکہ حیا نہ رہا تو دین ودنیا دونوں جاتے رہیں گے۔ دین تو نام ہی حیا کا ہے۔  دنیا میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5036   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4795  
´شرم و حیاء کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک شخص پر سے گزرے، وہ اپنے بھائی کو شرم و حیاء کرنے پر ڈانٹ رہا تھا (اور سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم کرنا اچھی بات نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، شرم تو ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4795]
فوائد ومسائل:
حیا اگرچہ ایک طبعی اور فطری عمل ہوتا ہے۔
مگر اس کے باوجود شرعی امور میں اور شرعی طور پر اس کے اظہار و استعمال کے لیئے قصد۔
کسب اور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے اسے ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4795   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث58  
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 58]
اردو حاشہ:
(1)
حیا سے مراد وہ اخلاقی کیفیت ہے جس کی وجہ سے انسان معیوب امور سے پرہیز کرتا ہے اور حق دار کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا۔

(2)
حیا مومن کی خوبی ہے، اس لیے ہر وہ چیز یا عمل جو انسان کو بے حیائی پر آمادہ کرے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

(3)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی بہت سی شاخیں ہیں جن میں کمی بیشی ممکن ہے، لہذا ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔

(4)
حیا کے متعلق نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے کہہ رہا تھا کہ اتنی زیادہ شرم اچھی نہیں ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرما دی۔

(5)
جب کسی سے کوئی غلط بات سننے میں آئے جسے وہ صحیح سمجھ رہا ہو تو اس کی غلط فہمی دور کر کے صحیح بات واضح کر دینی چاہیے۔
یہ بھی نهي عن المنكر کی ایک صورت ہے۔

(6)
بعض لوگ فطری طور پر شرمیلے ہوتے ہیں۔
ان کی تربیت کر کے ان کا رخ نیکیوں کی طرف موڑ دیا جائے تو یہ زیادہ مفید ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:24  
24. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک انصاری مرد کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ تو اتنی شرم کیوں کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دے کیونکہ شرم تو ایمان کا حصہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:24]
حدیث حاشیہ:

انسانی اخلاق وعادات میں حیا کا مقام بہت بلند ہے۔
یہ وہ خصلت ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے باز رکھتی ہے۔
حیا صرف لوگوں ہی سے نہیں بلکہ سب سے زیادہ حیا تو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے۔
اس بنا پر سب سے بڑا بے حیا بد بخت انسان ہے جو گناہ کرتے وقت اللہ سے نہیں شرماتا۔
یہی وجہ ہے کہ ایمان اور حیا کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔

حیا اس تأثر کا نام ہے جو کسی برے کام کے خیال سے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ جو خصلت انسان کو بھلائی پر آمادہ کرے اوربرائی سے روکے وہ حیا ہے۔
اس میں ایک طرح بزدلی اور عفت دونوں ہوتی ہیں اور اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔
بزدلی برائیوں سے روکتی ہے اور عفت اسے نیک کاموں کی طرف لاتی ہے۔
اس وضاحت سے پتہ چلاکہ جو لوگ شرعی امور میں حیا سے کام لیتے ہیں اس کا نام حیا رکھنا غلط ہے بلکہ یہ ان کی طبیعت کی کمزوری ہے جسے حیا کا نام دے کر چھپانا درست نہیں۔
یہ ایسا جُبْن (بزدلی)
ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6365)
حیا اور جبن میں بہت بڑا فرق ہے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا ایک ناپسندیدہ اور مکروہ خصلت ہے جیسا کہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مسئلہ دریافت کرتے وقت کہا کہ اللہ حق سے نہیں شرماتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کو اگر اپنے محل میں نہ رکھا جائے تو ان میں قباحت آجاتی ہے۔
حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنےکا مطلب یہ ہے کہ مسائل ضرور یہ میں حیا سے کام نہیں لینا چاہیے حیا تو ہر لحاظ سے خیر ہی ہے بشرطیکہ اسے اپنے محل میں استعمال کیا جائے۔
اگر اسے اپنے محل کے علاوہ استعمال کیا جائے گا۔
تو یہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔

حیا کا ذکر پہلے بھی آیا تھا لیکن ضمنی طورپرتھا اس مقام پر حیا کی اہمیت کو مستقل بیان کیا گیا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مرجیہ کی تردید ہے۔
یعنی ایمان کے لیے اعمال واخلاق کی ضرورت ہے۔
اس کے بغیر ایمان کمزور رہے گا۔
اس حدیث سے ایمان میں حیا کی مطلوبیت ثابت ہوتی ہے۔
اسی طرح ترک حیا سے ایمان میں نقص ہوگا لہذا معلوم ہوا کہ اعمال و اخلاق ایمان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6118  
6118. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی پر حیا کی وجہ سے ناراض ہو رہا تھا اور اسے کہہ رہا تھا تو حیا کرتا ہے اور حیا تجھے نقصان پہنچائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6118]
حدیث حاشیہ:
حیا کامل ایمان کا حصہ ہے، اور حیا ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔
جس طرح ایمان، مومن کو نافرمانی سے روکتا ہے اور اللہ کی اطاعت پر ابھارتا ہے، اسی طرح حیا فواحش و منکرات سے روکتی ہے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
جب انسان میں حیا نہ ہو تو بے حیا بن کر اللہ تعالیٰ سے بغاوت پر اتر آتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6118