سنن ترمذي
كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ
20. باب مَا جَاءَ فِي خُلُودِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ
باب: جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
حدیث نمبر: 2558
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ يَرْفَعُهُ، قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُتِيَ بِالْمَوْتِ كَالْكَبْشِ الْأَمْلَحِ فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُذْبَحُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدًا مَاتَ فَرَحًا لَمَاتَ أَهْلُ الْجَنَّةِ، وَلَوْ أَنَّ أَحَدًا مَاتَ حَزَنًا لَمَاتَ أَهْلُ النَّارِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا:
”قیامت کے دن موت کو چتکبرے مینڈھے کی طرح لایا جائے گا اور جنت و جہنم کے درمیان کھڑی کی جائے گی پھر وہ ذبح کی جائے گی، اور جنتی و جہنمی دیکھ رہے ہوں گے، سو اگر کوئی خوشی سے مرنے والا ہوتا تو جنتی مر جاتے اور اگر کوئی غم سے مرنے والا ہوتا تو جہنمی مر جاتے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4230) (صحیح) (”فلو أن أحدًا“ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ عطیہ عوفی ضعیف ہیں، اور اس ٹکڑے میں ان کا کوئی متابع نہیں، اور نہ اس کا کوئی شاہد ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح - دون قوله: " فلو أن أحدا ... " - الضعيفة (2669) // ضعيف الجامع الصغير (659) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2558) إسناده ضعيف
عطية: ضعيف (تقدم: 477) ولأصل الحديث شواهد دون قوله: ولو أن أحدًا مات۔۔۔۔إلخ
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2558 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2558
اردو حاشہ:
نوٹ:
(”فلو أن أحدًا“ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے،
کیوں کہ عطیہ عوفی ضعیف ہیں،
اور اس ٹکڑے میں ان کا کوئی متابع نہیں،
اور نہ اس کا کوئی شاہد ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2558
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3156
´سورۃ مریم سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وأنذرهم يوم الحسرة» ”اے نبی! ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ“ (مریم: ۳۹)، پڑھی (پھر) فرمایا: ”موت چتکبری بھیڑ کی صورت میں لائی جائے گی اور جنت و جہنم کے درمیان دیوار پر کھڑی کر دی جائے گی، پھر کہا جائے گا: اے جنتیو! جنتی گردن اٹھا کر دیکھیں گے، پھر کہا جائے گا: اے جہنمیو! جہنمی گردن اٹھا کر دیکھنے لگیں گے، پوچھا جائے گا: کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے: ہاں، یہ موت ہے، پھر اسے پہلو کے بل پچھاڑ کر ذبح کر دیا جائے گا، اگر اہل جنت کے لیے زندگی و بقاء کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3156]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے نبی! ان کو حسرت وافسوس کے دن سے ڈراؤ (مریم: 39)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3156
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7181
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا، گویا کہ وہ سر می مینڈھا ہے، ابو کریب نے یہ اضاٖفہ کیا، چنانچہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائےگا۔ (باقی حدیث میں ابن ابی شیبہ اور ابو کریب متفق ہیں) تو کہا جائے گا، اے جنتیو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟چنانچہ وہ سراوپر اٹھائیں گے اور دیکھ کر کہیں گے،ہاں یہ موت ہے اور کہا جائے گا، اے دوزخیو!کیا تم اسے پہچانتے ہو؟... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7181]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
موت بھی ایک مخلوق ہے،
اللہ نے فرمایا:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (سورة الملك: 2)
قیامت کے دن اللہ موت کو مینڈھے کی شکل دے گا اور یہ چیز اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے،
اس سے کوئی محال اور ناممکن چیز لازم نہیں آتی،
یا کہہ کر کہ انقلاب حقائق محال ہے،
اس کی تاویل کرنا درست نہیں ہے،
آخرت کو دنیا پر قیاس کرنا،
قدرت کو انسانی سانچہ میں ڈاھالنا ہی درحقیقت گمراہی کا منبع اور سر چشمہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7181
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4730
4730. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”موت کو ایک ایسے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا جو سفید اور سیاہ ہو گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر وہ منادی کرنے والا آواز دے گا: اے اہل دوزخ! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اس کو پہچانتے ہوئے جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر اس (مینڈھے) کو ذبح کیا جائے گا اور اعلان کرنے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! ہمیشہ جنت میں رہو، تمہارے لیے موت نہیں۔ اور اے اہل دوزخ! تم ہمیشہ دوزخ میں رہو، اب تمہارے لیے موت نہیں۔ آپ نے اس آیت کو پڑھا: ﴿وَأَنذِرْهُمْ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4730]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو سعید خدری سعد بن مالک انصاری ہیں حافظ حدیث تھے74 ھ میں بعمر84 سال انتقال کیا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
(رضي اللہ عنهم وأرضاهم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4730
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4730
4730. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”موت کو ایک ایسے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا جو سفید اور سیاہ ہو گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر وہ منادی کرنے والا آواز دے گا: اے اہل دوزخ! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اس کو پہچانتے ہوئے جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر اس (مینڈھے) کو ذبح کیا جائے گا اور اعلان کرنے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! ہمیشہ جنت میں رہو، تمہارے لیے موت نہیں۔ اور اے اہل دوزخ! تم ہمیشہ دوزخ میں رہو، اب تمہارے لیے موت نہیں۔ آپ نے اس آیت کو پڑھا: ﴿وَأَنذِرْهُمْ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4730]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”موت کو لایا جائے گا اور اسے پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا پھر اہل جنت کو آواز دی جائے گی وہ اس طرح ڈرتے ہوئے دیکھیں گے۔
کہ کہیں انھیں جنت سے نکال نہ دیا جائے۔
پھر اہل دوزخ کو آواز دی جائے گی۔
وہ بہت خوش ہوں گے اور خوشی سے اپنی گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے کہ انھیں دوزخ سے نکالا جائے گا۔
پھر ان سب کو کہا جائے گا کیا تم اسے پہنچانتےہو؟ وہ سب کہیں گے ہم اسے جانتے ہیں۔
پھر اسے ذبح کردینے کا حکم دیا جائے گا تو اسے پل صراط پر ذبح کیا جائے گا۔
پھر دونوں گروہوں سے کہا جائے گا تم جہاں جہاں ہو اس میں ہمیشہ رہو گے۔
موت نہیں آئے گی۔
“ (سنن ابن ماجہ الزھد حدیث4327)
ایک روایت میں ہے کہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار پر ذبح کیا جائے گا۔
(جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2557)
2۔
مقصد یہ ہے کہ اہل جنت کی خوشی کو دوبالا اور اہل جہنم کی پریشانی کو زیادہ کرنے کے لیے موت کو ذبح کر دیا جائے گا چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
”موت کو اس لیے ذبح کیا جائے گا تاکہ اہل جنت کی خوشی میں اضافہ ہو اور اہل جہنم کا افسوس اور دکھ مزید بڑھ جائے۔
“ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6548)
3۔
ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے لیے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے انھیں موت نہیں آئے گی اور نہ ان کے لیے راحت و آرام ہی کی زندگی ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان پر موت آئے گی کہ وہ مرجائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔
“ (فاطر: 35۔
36)
واضح رہے کہ یہ اعلان اس وقت کیا جائے گا جب شفاعت کی وجہ سے نجات پانے والے جنت میں جا چکے ہوں گے اور جہنم میں صرف وہی باقی رہ جائیں گے جن کے لیے وہاں ہمیشہ رہنے کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔
وہ وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش بھی کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے فرشتے انھیں وہاں سے نکلتے نہیں دیں گے اور انھیں جسمانی سزا اور ذہنی کو فت پہنچانے کے لیے نت نئے تجربےکریں گے۔
أعاذنا اللہ منه
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4730