سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
51. باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2502
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: حَكَيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، فَقَالَ: مَا يَسُرُّنِي أَنِّي حَكَيْتُ رَجُلًا، وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ صَفِيَّةَ امْرَأَةٌ، وَقَالَتْ بِيَدِهَا: هَكَذَا كَأَنَّهَا تَعْنِي قَصِيرَةً، فَقَالَ: " لَقَدْ مَزَجْتِ بِكَلِمَةٍ لَوْ مَزَجْتِ بِهَا مَاءَ الْبَحْرِ لَمُزِجَ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے“۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیشک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، گویا یہ مراد لے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قد ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”بیشک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 40 (4875) (تحفة الأشراف: 16132)، و مسند احمد (6/189) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے، اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4853 و 4857 / التحقيق الثانى) ، غاية المرام (427)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2502 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2502
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے،
اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2502
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4875
´غیبت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ کے لیے تو صفیہ رضی اللہ عنہا کا یہ اور یہ عیب ہی کافی ہے، یعنی پستہ قد ہونا تو آپ نے فرمایا: ”تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آ جائے“ اور میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال) ہو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4875]
فوائد ومسائل:
کسی کی فطری خلقت پر عیب لگانا اور تمسخر اور ٹھٹھا کرنا حرام ہے۔
یہ گو یا اللہ عزوجل پر عیب لگانا اور اپنی بڑائی کا اظہار ہے۔
جب فطری امور پر عیب لگانا حرام ہے تو اعمال پر تبصرہ بھی جائز نہیں الا یہ کہ کوئی مصیبت کا عمل ہوتا کہ عبرت ہو۔
اگر اس نے توبہ کرلی ہو تو ذکر کرنا بالاولٰی جائز نہیں۔
البتہ اعمالِ خیر کا ذکر جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4875