Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
77. بَابُ لاَ يَقُولُ فُلاَنٌ شَهِيدٌ:
باب: قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے۔
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 2898
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْتَقَى هُوَ وَالْمُشْرِكُونَ فَاقْتَتَلُوا فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَسْكَرِهِ وَمَالَ الْآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً، وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقَالَ: مَا أَجْزَأَ مِنَّا الْيَوْمَ أَحَدٌ كَمَا أَجْزَأَ فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ"، فَقَالَ رَجُلٌ: مِنَ الْقَوْمِ أَنَا صَاحِبُهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَى سَيْفِهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ، قَالَ الرَّجُلُ: الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر آ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی۔ اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2898 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2898  
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ ظاہر میں وہ شخص میدان جہاد میں بہت بڑا مجاہد معلوم ہو رہا تھا مگر قسمت میں دوزخ لکھی ہوئی تھی‘ جس کے لئے نبی کریمﷺ نے وحی اور الہام کے ذریعہ معلوم کرکے فرما دیا تھا۔
آخر وہی ہوا کہ خودکشی کرکے حرام موت کا شکار ہوا اور دوزخ میں داخل ہوا۔
انجام کا فکر ہر وقت ضروری ہے۔
اللہ پاک راقم الحروف اور جملہ قارئین کرام کو خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2898   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2898  
حدیث حاشیہ:

وہ شخص بظاہر میدان جہاد می بڑا مجاہد معلوم ہورہا تھا اور بڑی بے جگری سے لڑرہا تھا مگر اس کی قسمت میں جہنم لکھی ہوئی تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺنے بذریعہ وحی خبر دے دی تھی۔
آخر وہی کچھ ہوا۔
وہ خود کشی سے حرام موت مرا اور دوزخ میں داخل ہوا۔
اس بنا پر میدان جنگ میں مرنے والا شہید نہیں ہوتا اورنہ اسے شہید کہنا چاہئے۔
ممکن ہے کہ وہ شخص منافق یا ریاکار ہو، البتہ شریعت کے ظاہری احکام کے مطابق اسے شہداء کا حکم دیاجائےگا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاتمے کا اعتبار ہے اور اللہ تعالیٰ بعض اوقات کافر و منافق سے اپنے دین کی مدد لے لیتا ہے۔

شَاذََّه اس شخص کو کہتے جو لوگوں میں رہنے سہنے کے بعد ان سے الگ ہوجائے۔
فَاذَّه وہ ہے جو لوگوں سے بالکل میل جول نہ رکھے بلکہ شروع ہی سے ان سے الگ تھلگ رہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2898   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 83  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم» . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندہ جہنمیوں کا کام کرتا ہے اور دراصل وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے اور (بعض لوگ) جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں اور وہ درحقیقت دوزخی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، پس اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ مسلم بخاری نے روایت کیا ہے۔ (یعنی مرنے کے وقت اگر جنتیوں کے کام پر مرا ہے تو جنتی لوگوں میں سے ہے اور اگر مرنے کے وقت دوزخیوں کے کام پر مرا ہے تو دوزخی لوگوں میں سے ہے۔) واللہ اعلم . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 83]
تخریج:
[صحيح بخاري 6607]،
[صحيح مسلم 306]

فقہ الحدیث:
➊ جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔
➋ کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
➌ اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں، بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
➍ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔
➎ تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔
➏ اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔
➐ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہئیے۔
➑ مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 83   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 306  
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی جب رسول اللہ ﷺ اپنے لشکر کی طرف پلٹے اور فریقِ ثانی اپنے لشکر کی طرف جھکا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جو دشمن سے الگ ہونے والے کا تعاقب کرتا اور اپنی تلوار سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا، لوگوں نے کہا، آج جس قدر اس نے کام کیا ہے (مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا) اس قدر کسی نے نفع نہیں پہنچایا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:306]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شاذة:
لوگوں سے الگ ہونے والا انفاذۃ اکیلا،
تنہا۔
(2)
اجزأمنا:
ہمارے کام آیا،
ہمارے لیے کافی ہوا اور ہمیں فائدہ پہنچایا۔
(3)
لايدع احد:
وہ بہت جری اور بہادر ہے ہر ایک پر غلبہ پا لیتا ہے۔
(4)
انا صاحبه:
میں اس کے ساتھ رہوں گا۔
(5)
نصل:
پھل۔
(6)
ذباب:
دھار۔
(7)
اعظم الناس ذالك:
لوگوں نے اس کو بہت بڑا خیال کیا۔
لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 306   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4202  
4202. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جنگ حنین میں تھے۔ ابن مبارک نے یونس کے ذریعے سے امام زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ صالح نے زہری سے روایت کرنے میں ابن مبارک کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے کہا: مجھے زہری نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن کعب نے ان سے بیان کیا، ان سے عبیدالہ بن کعب نے، انہوں نے کہا: مجھے اس صحابی نے بتایا جو غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب نے نبی ﷺ سے خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4202]
حدیث حاشیہ:
جنگ خیبر کے لیے اسلامی فوج کی روانگی کا ایک منظر اس روایت میں پیش کیا گیا ہے اور باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ ذکر الہی کے لیے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نام نہاد صوفیوں میں ذکر باجہر کا ایک وظیفہ مروج ہے۔
زور زور سے کلمہ کی ضرب لگاتے ہیں۔
اس قدر چیخ کر کہ سننے والوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس حدیث سے ان کی بھی مذمت ثابت ہوئی۔
جس جگہ شارع ؑ نے جہر کی اجازت دی ہے وہاں جہر ہی افضل ہے جیسے اذان پنچ وقتہ جہری کے ساتھ مطلوب ہے یا جہری نمازوں میں سورة فاتحہ کے بعد مقتدی اور امام ہر دو کے لیے آمین بالجہر کہنا۔
یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے غرض ہر جگہ تعلیمات محمدی کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4202   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4207  
4207. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور مشرکین کا ایک غزوے میں سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں جم کر لڑے۔ پھر ہر فریق اپنے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو مشرکین کے کسی الگ ہونے والے اور تنہا رہنے والے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتا اور اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا تھا۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! کسی نے وہ کام نہیں کیا جو فلاں نے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں سے کون جنتی ہو گا؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں ضرور اس کا پیچھا کروں گا۔ وہ تیز دوڑے یا آہستہ چلے میں ضرور اس کے ساتھ رہوں گا، حتی کہ وہ جب زخمی ہوا اور جلدی مرنا چاہا تو اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اوراس کی تیز نوک دار دھار اپنے سینے کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4207]
حدیث حاشیہ:
اسی لیے تو فرمایا کہ اصل اعتبار خاتمہ کا ہے۔
جنتی لوگوں کا خاتمہ جنت کے اعمال پر اور دوزخیوں کا خاتمہ دوزخ کے اعمال پر ہوتا ہے۔
خود کشی کرنا شریعت میں سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔
یہ حرام موت مرنا ہے۔
روایت میں جنگ خیبر کا ذکر ہے۔
یہی روایت اور باب میں مطابقت ہے۔
یہ نوٹ آج شعبان سنہ1392 ھ کو مسجد اہلحدیث ہندو پور میں لکھ رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس مسجد کو قائم و دائم رکھے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4207   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6493  
6493. حضرت سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نےفرمایا: اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دیکھ لے۔ اسکے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پیکار رہاحتی کہ وہ زخمی ہوگیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینےپر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اعمال کا دارمدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6493]
حدیث حاشیہ:
یعنی آخر مرتے وقت جس نے جیسا کام کیا اسی کا اعتبار ہوگا اگر ساری عمر عبادت اور تقویٰ میں گزاری لیکن مرتے وقت گناہ میں گرفتار ہوا تو پچھلے نیک اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے اللہ سوء خاتمہ سے بچائے۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو گووہ فاسق فاجر ہو یا صالح اور پرہیز گار ہم قطعی طور پر دوزخی یا جنتی نہیں کہہ سکتے۔
معلوم نہیں کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوتا ہے اور اللہ کے ہاں اس کا نام کن لوگوں میں لکھا ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مسلمان کو اپنے اعمال صالحہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے اور سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے۔
بزرگوں نے تجر بہ کیا ہے کہ اہل حدیث اور اہل بیت نبوی سے محبت رکھنے والوں کا خاتمہ اکثر بہتر ہوتا ہے۔
یا اللہ!مجھ نا چیز کو بھی ہمیشہ اہل حدیث اور آل رسول سے محبت رہی ہے اور جس کو سادات سے پایادل سے اس کا احترام کیا ہے مجھ ناچیز حقیر گنہگار کو بھی خاتمہ بالخیر نصیب کہ برقول ایمان کنم خاتمہ۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6493   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4202  
4202. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جنگ حنین میں تھے۔ ابن مبارک نے یونس کے ذریعے سے امام زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ صالح نے زہری سے روایت کرنے میں ابن مبارک کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے کہا: مجھے زہری نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن کعب نے ان سے بیان کیا، ان سے عبیدالہ بن کعب نے، انہوں نے کہا: مجھے اس صحابی نے بتایا جو غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب نے نبی ﷺ سے خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4202]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس کلمے کو بطور وظیفہ پڑھ رہے تھے، یا لوگوں کے چلانے اور شور مچانے کی وجہ سے اسے پڑھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کو جنت کا خزانہ قراردیاہے کیونکہ اس میں اپنی قوت واستطاعت کی مطلق طورپر نفی ہے اوراللہ کی طرف اس کی نسبت بطورحصر ہے کہ زمین وآسمان کی بادشاہت میں اللہ کی قوت کےعلاوہ اور کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
بندے کی طرف سے اس قسم کا اعتراف وہ مقام عبودیت ہے جو بندے کے لیے خصوصی مقام اور اعلیٰ عبادت ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں تمام اُمور اللہ تعالیٰ کےسپرد کیے جاتے ہیں اور بندہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اقرارکرتا ہے کہ وہ اپنے کسی کام کا مالک نہیں۔
اس کلمے کو بطور مجاز جنت کا خزانہ قراردیاگیا ہے کہ اسے پڑھنے سے جنت کے خزانے حاصل ہوں گے یا حقیقی معنی ہیں کہ یہ کلمہ قیامت کے دن جنت کا خزانہ بن جائے گا کیونکہ جو چیز دنیا میں مرغوب فیہا ہے وہ آخرت کے اعتبار سے خزانہ ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ کلمہ ہی خزانہ ہو۔

اس حدیث کےسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ خیبر جاتے ہوئے پیش آیا، حالانکہ یہ واقعہ خیبر سے واپسی کا ہے کیونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فتح خیبر کے بعد حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ حبشے سےواپس آئے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، گویا مذکورہ حدیث میں کچھ عبارت حذف ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے، اس کا محاصرہ کیا، پھر اس فتح کرنے کے بعد واپس لوٹے تو لوگ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھے اور انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
۔
۔
(فتح الباري: 587/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4202   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4207  
4207. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور مشرکین کا ایک غزوے میں سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں جم کر لڑے۔ پھر ہر فریق اپنے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو مشرکین کے کسی الگ ہونے والے اور تنہا رہنے والے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتا اور اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا تھا۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! کسی نے وہ کام نہیں کیا جو فلاں نے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں سے کون جنتی ہو گا؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں ضرور اس کا پیچھا کروں گا۔ وہ تیز دوڑے یا آہستہ چلے میں ضرور اس کے ساتھ رہوں گا، حتی کہ وہ جب زخمی ہوا اور جلدی مرنا چاہا تو اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اوراس کی تیز نوک دار دھار اپنے سینے کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4207]
حدیث حاشیہ:

اس شخص کا نام قزمان ظفری تھا۔
انصار کے ایک چھوٹے قبیلے بنوظفر کی طرف منسوب ہے۔
اس کی کنیت ابوغیداق تھی۔
(شَاذَّه)
اس بکری کو کہتے ہیں جو ریوڑ سے الگ ہوکر چرے اور (فَاذَّه)
وہ بکری جو ابتدا ہی سے دوسری بکریوں سے الگ تھلگ رہے۔
(فتح الباري: 589/7)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص مشرکین کے کسی آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا، جسے دیکھتا اسے اپنی تلوار کی نوک پر رکھ لیتا تھا۔
وہ شخص مناق تھا اور اس نے اپنے نفاق کو چھپارکھاتھا، اس لیے یہ حدیث ا پنے ظاہری مفہوم میں واضح ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تلوار سے کام تمام کیا تھا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تیر سے خود کشی کی تھی، ان روایات میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے کیونکہ پہلے اس نے تیر سے خود کو زخمی کیا، لیکن ا س سے مقصد حاصل نہ ہوتوتلوار سے اپنا کام تمام کردیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4207   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6493  
6493. حضرت سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نےفرمایا: اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دیکھ لے۔ اسکے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پیکار رہاحتی کہ وہ زخمی ہوگیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینےپر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اعمال کا دارمدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6493]
حدیث حاشیہ:
(1)
بندے کو اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے برے خاتمے سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔
حسن خاتمہ کی چند ایک علامات حسب ذیل ہیں:
٭ وفات کے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3116)
٭ وفات کے وقت پیشانی پر پسینہ نمودار ہونا۔
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 982)
٭ جمعہ کی رات یا دن میں فوت ہونا۔
(مسند احمد: 196/2)
٭ میدان قتال و جہاد میں شہادت کی موت حاصل کرنا۔
(مسند أحمد: 131/4)
٭ طاعون کی بیماری سے موت آنا۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2830)
٭ ٹی بی کی بیماری میں وفات پانا۔
(مجمع الزوائد: 317/4)
٭ اپنے مال و عزت کا دفاع کرتے ہوئے مر جانا۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4772)
٭ سرحدی پہرے کی حالت میں موت آنا۔
(صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 4938 (1913)
٭ کسی بھی نیک عمل پر موت آنا۔
(مسند أحمد: 391/5)
٭ لوگوں کا میت کی تعریف کرنا۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2200 (949)
٭ پیٹ کی بیماری سے، غرق ہو کر، ملبے کے نیچے دب کر، فالج کے سبب اور عورت کو حالت نفاس میں موت آنا بھی حسن خاتمہ کی علامتیں ہیں کیونکہ متعدد احادیث میں ان سب کو شہید قرار دیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4940 (1914)
، مسند أحمد: 391/5)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ سے نوازے۔
آمین یا رب العالمین۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے اچھے یا برے انجام کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر کسی کو پتا ہوتا کہ وہ نجات یافتہ ہے تو وہ خود پسندی کا شکار ہو کر سستی کا مظاہرہ کرتا اور اگر کسی کو معلوم ہوتا کہ وہ ہلاک ہونے والا ہے تو وہ مزید سرکشی میں آگے بڑھتا، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ انسان امید اور خوف کے درمیان رہے جو ایک ایمانی کیفیت ہے۔
(فتح الباري: 401/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6493   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6607  
6607. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے ساتھ ایک لڑائی میں شرکت کی۔ بلاشبہ وہ بہت سے مسلمانوں سے کفایت کرتے ہوئے (کافروں کے مقابلے میں اکیلا) بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا۔ نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا: جو شخص کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ چنانچہ وہ شخص جب لڑنےمیں مصروف تھا اور مشرکین کو اپنی بہادری کی وجہ سے سخت تر تکالیف میں مبتلا کررہا تھا تو ایک مسلمان اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ آخر وہ زخمی ہوگیا اور جلدی سے مرنا چاہا، اس لیے اس نے اپنی تلوار کی نوک سینے کے درمیان رکھی اور دباؤ دیا تو وہ تلوار اس کے شانوں کو پار کرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد اس کا پیچھا کرنے والا شخص نبی ﷺ کی خدمت میں دوڑتا ہوا حاضر ہوا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: بات کیا ہے؟ اس نے کہا: آپ نے فلاں فلاں شخص کے بارے میں فرمایا تھا: جو کسی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6607]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جاں بازی اور پامردی دیکھ کر بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں اچھے اعمال سے حسن خاتمہ کی امید اور برے اعمال سے سوء خاتمہ کا اندیشہ ضرور ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم کسی عمل کرنے والے کے عمل کو دیکھ کر خوش نہ ہو جاؤ یہاں تک کہ اس کے خاتمے کو نہ دیکھ لو۔
(مسند أحمد: 120/3) (2)
جب مدار خاتمے پر ہے تو ظاہری اعمال کو دیکھ کر کسی کے جنتی ہونے کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
اس قسم کی احادیث نے اولیاء اللہ کا خون، پانی بنا رکھا ہے کیونکہ یہ خبر کس کو ہے کہ اس کا خاتمہ کیسے اعمال پر ہو گا۔
اصل فیصلہ وہی ہوتا ہے جو تقدیر کر چکی ہے، باقی ہے ظاہری اعمال تو یہ انسان کے اچھے یا برے ہونے کی ظاہری علامتیں ہیں، اس کے باوجود اُس جہان میں فیصلہ بیشتر عمل کے تابع رکھا گیا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے جسے جنت دینی ہے تو اس سے عمل بھی اہل جنت کے کرائے جائیں گے اور جسے بخشنا منظور نہیں اس سے اعمال بھی اسی کے مطابق کرائے جائیں گے تاکہ اعمال اور جزا کے درمیان ظاہری تناسب بھی باقی رہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتی شخص کے سے عمل بھی کرا لیتا ہے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ بھی اسی قسم کے اعمال پر ہو جاتا ہے۔
بالآخر وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4703)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ سے کہا گیا اللہ تعالیٰ عمل کیسے کرا لیتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
موت سے پہلے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
(جامع الترمذي، القدر، حدیث: 2142) (3)
بہرحال نجات کا دارومدار خاتمے پر ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص جنتی لوگوں جیسے عمل کرتا نظر آتا ہے۔
۔
۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 306 (112)
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو حقیقت کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ دوزخی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں برے خاتمے سے محفوظ رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6607