سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
78. باب مِنْهُ
باب: حکمراں جب تک نماز کی پابندی کرے اس کی اطاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2265
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ بَرِيءَ، وَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ "، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: " لَا مَا صَلُّوا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمراں ہوں گے جن کے بعض کاموں کو تم اچھا جانو گے اور بعض کاموں کو برا جانو گے، پس جو شخص ان کے برے اعمال پر نکیر کرے وہ مداہنت اور نفاق سے بری رہا اور جس نے دل سے برا جانا تو وہ محفوظ رہا، لیکن جو ان سے راضی ہو اور ان کی اتباع کرے
(وہ ہلاک ہو گیا)“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ آپ نے فرمایا:
”نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة (1854)، سنن ابی داود/ السنة 30 (4760) (تحفة الأشراف: 18166)، و مسند احمد (6/295) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: منکر کا انکار اگر زبان سے ہے تو ایسا شخص نفاق سے بری ہے، اور دل سے ناپسند کرنے والا اس منکر کے شر اور وبال سے محفوظ رہے گا، لیکن جو پسند کرے اور اس سے راضی ہو تو وہ منکر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی جس سزا کے وہ مستحق ہوں گے اس سزا کا یہ بھی مستحق ہو گا، منکر انجام دینے والے بادشاہوں سے اگر وہ نماز کے پابند ہوں قتال کرنے سے اس لیے منع کیا گیا تاکہ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں، اور امت اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو، جب کہ نماز کی پابندی نہ کرنے والا تو کافر ہے، اس لیے اس سے قتال جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2265 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2265
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
منکر کا انکار اگر زبان سے ہے تو ایسا شخص نفاق سے بری ہے،
اور دل سے ناپسند کرنے والا اس منکر کے شر اور وبال سے محفوظ رہے گا،
لیکن جو پسند کرے اور اس سے راضی ہو تو وہ منکر کرنے والوں کے ساتھ ہے،
یعنی جس سزاکے وہ مستحق ہوں گے اس سزا کا یہ بھی مستحق ہوگا،
منکر انجام دینے والے بادشاہوں سے اگر وہ نماز کے پابند ہوں،
قتال کرنے سے اس لیے منع کیاگیا تاکہ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں،
اور امت اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو،
جب کہ نماز کی پابندی نہ کرنے والا تو کافر ہے،
اس لیے اس سے قتال جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2265
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4760
´خوارج سے قتال کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف (نیک اعمال) ہوتے بھی دیکھو گے اور منکر (خلاف شرع امور) بھی دیکھو گے، تو جس نے منکر کا انکار کیا، (ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی روایت میں «بلسانہ» کا لفظ بھی ہے (جس نے منکر کا) اپنی زبان سے انکار کیا) تو وہ بری ہو گیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا، البتہ جس نے اس کام کو پسند کیا اور اس کی پیروی کی تو وہ بچ نہ سکے گا“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں؟ (سلیمان ابن داود طیالسی) کی روایت میں ہے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4760]
فوائد ومسائل:
1: نماز ایک ایسا عمل ہے، اس کی پابندی انسان کے لئے بڑے سے بڑے گناہ سے بھی قتل وقتال سےرکاوٹ بن جاتی ہے، سوائے اس کہ معروف حدود کا ارتکاب کرے۔
2: اور ایسے امراء جو نماز پڑھتے ہوں ان کے خلاف خروج (بغاوت) جائز نہیں۔
نماز ترک کر دیں تو مسئلہ اختلافی ہے۔
3: شرعی منکرات اور رعیت پرظلم کو آدمی قوت سے بدلنے پر قادر نہ ہو تو زبان سے یا کم از کم دل سے ان کو برا کہنا اور جاننا فرض ہے ورنہ ایمان نہیں۔
4: ظالموں کے ظلم پر راضی رہنا اور ان کا معاون بننا دنیا اور آخرت کی ہلاکت کا باعث ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4760