حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَحَمَّادٍ، وَعَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، سمعوا أبا وائل، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، قَالَ حُذَيْفَةُ: " فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ يُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ "، فَقَالَ عُمَرُ: لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، وَلَكِنْ عَنِ الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ عُمَرُ: أَيُفْتَحُ أَمْ يُكْسَرُ؟ قَالَ: بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: إِذًا لَا يُغْلَقُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالَ أَبُو وَائِلٍ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: فَقُلْتُ لِمَسْرُوقٍ: سَلْ حُذَيْفَةَ عَنِ الْبَابِ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے؟ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ رضی الله عنہ نے بیان کیا:
”آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہو گا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں
“ ۱؎، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے، عمر نے پوچھا: کیا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: توڑ دیا جائے گا، عمر رضی الله عنہ نے کہا: تب تو قیامت تک بند نہیں ہو گا۔ حماد کی روایت میں ہے کہ ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا: میں نے مسروق سے کہا کہ حذیفہ سے اس دروازہ کے بارے میں پوچھو انہوں نے پوچھا تو کہا: وہ دروازہ عمر ہیں
۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2258
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل،
مال،
اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو نماز،
روزہ،
صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔
2؎:
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا،
یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا،
اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی،
چنانچہ ہر کوئی سکون واطمینان کا متلاشی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2258
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 525
´فتنوں کا کفارہ`
«. . . قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنْ الْفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ . . .»
”. . . عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 525]
� لغوی توضیح:
«الإِسْلاَمُ بَدَأَ غَرِيباً» اسلام اجنبی شروع ہوا، یعنی چند قلیل افراد میں، پھر پھیلا اور غالب آ گیا۔
«الَّتِي» «تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ» وہ فتنہ جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا، مراد اس کی شدت، عظمت، پھیلاؤ اور وسعت ہے۔
«بَابًا مُغْلَقًا» بند دروازہ، مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی حیات طیبہ میں کوئی بڑا فتنہ رونما نہیں ہوا لیکن ان کی شہادت کے بعد ایسا فتنوں کا دروازہ کھلا جو آج تک بند نہیں ہو سکا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 88
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3955
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل: 1۔
اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔
ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔
(2)
۔
چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔
(3)
اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔
(4)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔
اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔
(5)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔
عام مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔
(6)
یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپﷺ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔
اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3955
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7268
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے کہا: فتنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جس طرح آپ نے خود فرمایا تھا تم میں سے کسی کو یاد ہے؟(حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: مجھے۔(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: تم بہت جرات مند ہو۔ (یہ بتاؤ کہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ارشاد فرمایاتھا؟میں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7268]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان اور مومن بندے سے اپنے متعلقین کے سلسلہ میں جوکوتاہیاں اور قصور سرزد ہوتے ہیں،
اپنی فرائض نماز،
روزہ وغیرہ ان کا کفارہ بن جاتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ امت اسلامیہ کے فتنوں میں مبتلا ہونے کے سامنے ایک بند دروازہ تھے،
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے یہ د روازہ ٹوٹ گیا،
ان کی طبعی موت سے دروازہ نہ کھلا تو اس کے بعد مسلمان یا امت اسلامیہ فتنوں سے دوچار ہو گئی،
جواب وقتا فوقتا کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں،
کبھی ان کی شدت کم ہوتی اور کبھی زیادہ اور آج امت شدید فتنوں میں مبتلا ہے،
ہر طرف نام کے مسلمانوں کا تسلط اور غلبہ ہے،
جو ذہنی اور فکری طور پر غیر مسلموں سے مرعوب بلکہ ان کے غلام ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7268
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1435
1435. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہو؟ میں نے کہا:جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے اسی طرح یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں! تمہاری جرءت اس بارے میں قابل داد ہے، بتاؤ!آپ نے کیسے فرمایا تھا؟میں نے کہا: آدمی کا فتنہ اپنے اہل وعیال، اولاد اور ہمسائے کے متعلق ہوتا ہے، نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز اچھا کام اس کے لیے کفارہ ہے۔ راوی حدیث سلیمان نے کہا: وہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنایہ سب اس کا کفارہ بن جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اسکے متعلق نہیں، بلکہ میں تو اس فتنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوسمندروں کی لہروں کی طرح موجز ہوگا۔ میں نے کہا:اے امیرالمومنین!آپ اس کے متعلق کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کے اور اسکے درمیان ایک بند شده دروازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1435]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے حضرت حذیفہ ؓ کے بیان کی تعریف کی، کیونکہ وہ اکثر آنحضرت ﷺ سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپ کے بعد ہونے والے تھے‘ پوچھتے رہا کرتے تھے۔
جب کہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی۔
اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا، کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے۔
اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1435
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1895
1895. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ فتنے کے متعلق نبی کریم ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛ ”انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔“ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس فتنے کے متعلق نہیں پوچھ رہاہوں بلکہ مجھے اس فتنے کے بارے میں دریافت کرنا ہے۔ جو سمندر کی طرح موجزن ہوگا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا کہ اس فتنے سے پہلے ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا: اس دروازے کو کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟عرض کیا: اسے توڑا جائے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: پھر تو یہ دروازہ اس لائق ہے کہ قیامت کے دن تک بند نہ ہو۔ ہم نے راوی حدیث مسروق سے دریافت کیا: تم ان سے پوچھو کہ آیا حضرت عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1895]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں نماز کے ساتھ روزہ کو بھی گناہوں کا کفارہ کہا گیا ہے یہی باب کا مقصد ہے، یہاں جن فتنوں کی طرف اشارہ ہے ان سے وہ فتنے مراد ہیں جو خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئے تھے اور آج تک ان فتنوں کے خطرناک اثرات امت میں افتراق کی شکل میں باقی ہیں۔
حضرت عمر ؓ نے اپنی فراست کی بنا پر جو کچھ فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہا ہے۔
اللهم صل وسلم علی حبیبك و علی صاحبه و اغفرلنا و ارحمنا یا أرحم الراحمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1895
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3586
3586. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد ہو؟حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: واقعی تم بڑے دلیر معلوم ہوتے ہو، اسے بیان کرو۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آزمائش تو انسان کی اس کے مال ومتاع میں، اس کے اہل وعیال میں اور اپنے پڑوس میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ وخیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔“ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اس سے متعلق نہیں۔ ہاں، اس فتنے کی نشاندہی کروجو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوگا۔ انھوں نے کہا: اے امیر المومنین ؓ!آپ کو اس فتنے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ دروازہ کھولا جائے گایا اسے توڑا جائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3586]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث مع شرح اوپر گزر چکی ہے۔
امام بخاری ؒ اس باب میں اس کو اس لیے لائے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہے کوئی فتنہ اور فساد مسلمانوں میں نہیں ہوا۔
ان کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا تو آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔
زرکشی نے کہا کہ حذیفہ ؓ اگر اس دروازے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات کہتے تو درست ہوتا ان کی شہادت کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔
(بلکہ حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت بھی فتنہ گروں کے ہاتھوں ہوئی)
راقم کہتا ہے کہ یہ زرکشی کی خوش فہمی ہے۔
فتنوں کا دروازہ تو حضرت عثمان ؓ کی حیات میں کھل گیا تھا پھر وہ دروازہ کیسے ہوسکتے ہیں۔
حذیفہ ایک جلیل الشان صحابی اور آنحضرت ﷺ کے محرم راز تھے۔
انہوں نے جو امر قرار دیا، زرکشی کو اس پر اعتراض کرنا زیبا نہیں تھا (وحیدی)
اہل ومال کے فتنے سے مراد خداکی یاد سے غافل ہونا اور دل پر غفلت کا پردہ آنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3586
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7096
7096. حضرت حزیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک دفعہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اچانک دریافت کیا تم میں سے کون ہے جو فتنے کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان یاد رکھتا ہو؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: انسان کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی کے معاملات میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس کے بارے میں نہیں پوچھتا بلکہ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: امیرالمومنین! تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ تمہارے اوراس کے درمیان ایک بندہ دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: پھر وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ میں نے کہا: جی ہاں (وہ بند نہیں ہو سکے گا) ہم نے حضرت حذیفہ ؓ سے پوچھا: کیا حضرت عمر ؓ دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: ہاں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7096]
حدیث حاشیہ:
توڑے جانے سے ان کی شہادت مراد ہے۔
إناﷲ و إنا إلیه راجعون۔
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات مسلمانوں کی پشت پناہ تمام آفتوں اور بلاؤں کی روک تھی۔
جب سے یہ ذات مقدس اٹھ گئی مسلمان مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔
آئے دن ایک ایک آفت ایک ایک مصیبت۔
اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو ان جاہل درویشوں اور صوفیوں کی جو معاذ اللہ ہر چیز کو خدا اور عابد اور معبود کو ایک سمجھتے ہیں، پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان بدعتی گور پرستوں اور پیر پرستوں اور ان رافضیوں اور خارجیوں، دشمنان صحابہ و اہل بیت کی کچھ دال گلنے پانی کبھی نہیں ہرگز نہیں۔
یا اللہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اور ایک شخص کو مسلمانوں میں بھیج دے اور جو اسلام کا جھنڈا ازسرنو بلند کرے اور دشمنان اسلام کو سرنگوں کر دے۔
آمین یا رب العالمین۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7096
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:525
525. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا: تم میں سے کس کو فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان یاد ہے؟ میں نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: بلاشبہ تم ہی اس قسم کی بات کرنے کے متعلق جراءت کر سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا: (آپ نے فرمایا تھا:) انسان کا وہ فتنہ جو اس کے گھر بار، مال و اولاد اور اس کے ہمسایوں میں ہوتا ہے، اسے تو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا مقصد اس قسم کے فتنے کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ میں اس فتنے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! اس فتنے سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ حائل ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:525]
حدیث حاشیہ:
(1)
أغاليط، أغلوطة کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے کسی دوسرے کو مغالطے میں ڈالا جا سکے۔
اس سے حضرت حذیفہ ؓ کا مقصود یہ تھا کہ میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی سچی اور کھری باتیں سنا رہا ہوں، اپنی رائے یا اجتہاد سے کوئی بات بنا کر تمھیں کسی مغالطےمیں نہیں ڈالنا چاہتا۔
واقعی حضرات صحابۂ کرام کی یہ شان تھی رضی اللہ عنہم۔
(2)
اہل وعیال کے متعلق فتنے سے یہ مراد ہے کہ اپنے اہل خانہ کی خاطر کوئی ایسی بات یا ایسا کام کیا جائے جو شرعا جائز نہ ہو۔
اولاد کے فتنے سے مراد ان کی محبت میں مبتلا ہو کر کارہائے خیر سے محروم رہنا ہے۔
مال کے فتنے سے مراد حرام ذرائع سے اس کا حصول اور غلط مصرف پر اس کا استعمال کرنا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ ”تمھاری اولاد اور تمھارے مال تمھارے لیے باعث فتنہ ہیں۔
“ (التغابن: 64: 15) (3)
احادیث کی روشنی میں گناہوں کے معاف ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ وضو کرنے سے دھل جاتے ہیں، ان سے بڑے مسجد کی طرف نماز کی نیت سے آنے کی بنا پر معاف ہو جاتے ہیں، پھر پابندئ اوقات اور رعایت خشوع سے نماز پڑھنے کی بدولت گناہ ختم ہوجاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نماز سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوں گے، کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًاظ﴾ ” ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ پیش کرو۔
“ (التحریم: 66: 8)
اگر صرف نماز ادا کرنے اور دیگر اعمال خیر بجا لانے سے ہی تمام صغیرہ کبیرہ معاف ہوجاتے ہوں تو توبہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے جس کی طرف باری تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 525
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1435
1435. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہو؟ میں نے کہا:جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے اسی طرح یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں! تمہاری جرءت اس بارے میں قابل داد ہے، بتاؤ!آپ نے کیسے فرمایا تھا؟میں نے کہا: آدمی کا فتنہ اپنے اہل وعیال، اولاد اور ہمسائے کے متعلق ہوتا ہے، نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز اچھا کام اس کے لیے کفارہ ہے۔ راوی حدیث سلیمان نے کہا: وہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنایہ سب اس کا کفارہ بن جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اسکے متعلق نہیں، بلکہ میں تو اس فتنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوسمندروں کی لہروں کی طرح موجز ہوگا۔ میں نے کہا:اے امیرالمومنین!آپ اس کے متعلق کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کے اور اسکے درمیان ایک بند شده دروازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1435]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت حذیفہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں عام طور پر رسول اللہ ﷺ سے فتنوں کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ ان سے بچنے کے متعلق کوئی تدبیر کروں۔
(2)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر ؓ کا شہید ہونا تھا جسے حضرت عمر فاروق ؓ بھی خوب جانتے تھے۔
واقعی آپ کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا بازار گرم ہوا جو قیامت تک ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔
آپ کا وجود مسعود واقعی ان فتنوں کے سامنے سدِ سکندری کی حیثیت رکھتا تھا۔
(3)
حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور آدمی اندرونی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد ہم آئندہ حدیث: 3586 کے تحت ذکر کریں گے۔
إن شاءاللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1435
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1895
1895. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ فتنے کے متعلق نبی کریم ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛ ”انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔“ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس فتنے کے متعلق نہیں پوچھ رہاہوں بلکہ مجھے اس فتنے کے بارے میں دریافت کرنا ہے۔ جو سمندر کی طرح موجزن ہوگا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا کہ اس فتنے سے پہلے ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا: اس دروازے کو کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟عرض کیا: اسے توڑا جائے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: پھر تو یہ دروازہ اس لائق ہے کہ قیامت کے دن تک بند نہ ہو۔ ہم نے راوی حدیث مسروق سے دریافت کیا: تم ان سے پوچھو کہ آیا حضرت عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1895]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ ”نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
“ (ھود114: 11)
لیکن کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوں گے۔
اس طرح حقوق العباد بھی حق دینے یا معافی لینے سے معاف ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ توبہ گناہوں کی معافی کے لیے شرط نہیں اللہ تعالیٰ کسی اور نیکی کی بنا پر بھی کبیرہ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے، البتہ توبہ گناہوں کی معافی کا ایک اہم سبب ضرور ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کو اپنے شہید ہونے کا حتمی علم تھا جیسے کل کے دن سے پہلے رات کا آنا یقینی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوا کہ سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا دروازہ کھلا جو ابھی تک بند نہیں ہوا۔
ملت اسلامیہ آج تک ان فتنوں سے دوچار ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں اور رمضان سے دوسرے رمضان تک اگر انسان بڑے گناہوں سے پرہیز کرے تو یہ دوسرے گناہوں کا کفارہ ہیں۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 552(233)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کی حدود کو پہچانا تو یہ روزے گذشتہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوں گے۔
(شعب الإیمان، فضائل شھررمضان: 310/3) (3)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
(باب الصلاة كفارة)
”نماز کفارہ ہے۔
“ اسی طرح کتاب الزکاۃ میں ایک باب اس طرح قائم کیا ہے:
(باب الصدقة تكفر الخطيئة)
”صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
“ بہرحال روزہ رکھنے سے اجروثواب کے ساتھ ساتھ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔
(فتح الباري: 143/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1895
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3586
3586. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد ہو؟حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: واقعی تم بڑے دلیر معلوم ہوتے ہو، اسے بیان کرو۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آزمائش تو انسان کی اس کے مال ومتاع میں، اس کے اہل وعیال میں اور اپنے پڑوس میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ وخیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔“ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اس سے متعلق نہیں۔ ہاں، اس فتنے کی نشاندہی کروجو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوگا۔ انھوں نے کہا: اے امیر المومنین ؓ!آپ کو اس فتنے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ دروازہ کھولا جائے گایا اسے توڑا جائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3586]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒنے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیوں کا آغاز کیا ہے۔
2۔
حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ سے اکثر فتنوں کے متعلق سوال کیا کرتے تھے تاکہ ان سے محفوظ رہا جا کسے۔
صحابہ کرام ؓ میں انھیں رسول اللہ ﷺ کا راز دان کہا جاتا تھا۔
انھوں نے گمان یا اندازے سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی سے معلوم کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہیں گے۔
مسلمانوں میں کسی قسم کا فتنہ و فاسد رونما نہیں ہو گا۔
ان کے بعد فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا۔
واقعی رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔
اس وقت سے امت مسلمہ تنزلی کا شکار ہے۔
بہر حال رسول اللہ ﷺ نے آنے والے حالات کی خبر یں دی ہیں جو بعینہ پوری ہوئیں یہ بھی آپ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے۔
3۔
اہل و عیال کے فتنے سے مراد ہے کہ انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے اور ہمسائے کا فتنہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہمسایوں سے بغض حسد رکھتا ہے یا ان پر فخر و مباہات کرتا ہے یا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی کرتا ہے۔
حدیث میں گھر مال اور ہمسائے کا ذکر ہے اور ان فتنوں کا کفارہ بھی تین چیزیں ہیں چنانچہ نماز اور روزہ فعلی عبادت ہے صدقہ و خیرات مالی عبادت ہے اور امر بالعمروف نہی عن المنکر قولی عبادت ہے یہ تینوں قسم کی عبادات بالترتیب تینوں قسم کی کوتاہیوں کا کفارہ ہیں۔
(فتح الباري: 739/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3586
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7096
7096. حضرت حزیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک دفعہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اچانک دریافت کیا تم میں سے کون ہے جو فتنے کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان یاد رکھتا ہو؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: انسان کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی کے معاملات میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس کے بارے میں نہیں پوچھتا بلکہ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: امیرالمومنین! تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ تمہارے اوراس کے درمیان ایک بندہ دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: پھر وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ میں نے کہا: جی ہاں (وہ بند نہیں ہو سکے گا) ہم نے حضرت حذیفہ ؓ سے پوچھا: کیا حضرت عمر ؓ دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: ہاں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7096]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واقعی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ کی ذات گرامی فتنوں کی روک تھام کے لیے ایک بند دروازے کی حیثیت رکھتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی عزت بحال رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ! دو بندوں میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے سے اسلام کی مدد فرما۔
وہ آدمی ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے اپنے محبوب بندے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا۔
(مسند ُحمد: 2/95)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد عزت کے ساتھ سر اونچا کر کے چلنے کا موقع میسر آیا۔
(صحیح البخارذو مناقب الُنصارو حدیث: 3863)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
""عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! جس گلی کوچے میں تم جاتے ہو وہاں سے فتنوں کا سرغنہ ابلیس لعین بھاگ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3683)
2۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعی فتنوں کے سامنے ایک بند دروازے کی حیثیت رکھتے تھے۔
ایک آدمی نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:
ابوسلیمان! آپ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، فتنوں کا دورشروع ہو چکا ہے۔
یہ سن کر انھوں نے فرمایا:
جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہیں فتنوں سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔
یہ فتنے ان کے بعد ہوں گے، چنانچہ آدمی سوچ بچار کر کے کہے گا کہ کوئی ایسی جگہ میسر آئے جہاں ان کے اثرات نہ ہوں تاکہ وہ وہاں چلا جائے لیکن کوئی ایسی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
یہ وہ ایام ہوں گے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل وغارت کے دن (ایام ہرج)
قرار دیا ہے اور یہ قیامت سے پہلے ہوں گے۔
ہم اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ وہ دن ہمیں یا آپ کو دیکھنے پڑیں۔
(مسندأحمد: 90/4)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واقعی فتنوں کے لیے بند دروازہ بنایا، یہ دروازہ ٹوٹتے ہی فتنوں نے امت مسلمہ کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7096