Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
59. باب مَا جَاءَ فِي فِتْنَةِ الدَّجَّالِ
باب: دجال کے فتنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2240
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، دخل حديث أحدهما في حديث الآخر، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، قَالَ: فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَيْهِ فَعَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكُمْ؟ " قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، قَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ، شَبِيهٌ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الْكَهْفِ، قَالَ: يَخْرُجُ مَا بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالًا، يَا عِبَادَ اللَّهِ، اثْبُتُوا "، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: " أَرْبَعِينَ يَوْمًا، يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ "، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الْيَوْمَ الَّذِي كَالسَّنَةِ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ: " لَا، وَلَكِنْ اقْدُرُوا لَهُ "، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا سُرْعَتُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: " كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيُكَذِّبُونَهُ وَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ وَيُصْبِحُونَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُصَدِّقُونَهُ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ كَأَطْوَلِ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَمَدِّهِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّهِ ضُرُوعًا، قَالَ: ثُمَّ يَأْتِي الْخَرِبَةَ، فَيَقُولُ: لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَيَنْصَرِفُ مِنْهَا فَتَتْبَعُهُ كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ، إِذْ هَبَطَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَّانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، قَالَ: وَلَا يَجِدُ رِيحَ نَفْسِهِ يَعْنِي أَحَدًا إِلَّا مَاتَ وَرِيحُ نَفْسِهِ مُنْتَهَى بَصَرِهِ، قَالَ: فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلَهُ، قَالَ: فَيَلْبَثُ كَذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ يُوحِي اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ حَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ، فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، قَالَ: وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ: مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96، قَالَ: فَيَمُرُّ أَوَّلُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيهَا، ثُمَّ يَمُرُّ بِهَا آخِرُهُمْ، فَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ الْمَقْدِسٍ، فَيَقُولُونَ: لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ هَلُمَّ، فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مُحْمَرًّا دَمًا، وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ، قَالَ: فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ، قَالَ: فَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، قَالَ: وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ، قَالَ: فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ، قَالَ: فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، قَالَ: فَتَحْمِلُهُمْ، فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ، وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّهِمْ وَنُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ، قَالَ: وَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ، قَالَ: فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ فَيَتْرُكُهَا كَالزَّلَفَةِ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَخْرِجِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِهَا، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ، حَتَّى إِنَّ الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْإِبِلِ، وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْبَقَرِ، وَإِنَّ الْفَخِذَ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْغَنَمِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ.
نواس بن سمعان کلابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے (اس کی حقارت اور اس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دوران گفتگو) آواز کو بلند اور پست کیا ۱؎ حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے، (جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے (اس کی حقارت اور سنگینی بیان کرتے ہوئے) اپنی آواز کو بلند اور پست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے۔ آپ نے فرمایا: دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں، اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود ہوں تو میں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا، اور اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (جانشیں) ہے ۲؎، دجال گھونگھریالے بالوں والا جوان ہو گا، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہو گی تو ان میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں، پس تم میں سے جو شخص اسے پا لے اسے چاہیئے کہ وہ سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا، اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: چالیس دن، ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہو گا، ایک دن ہفتہ کے برابر ہو گا اور باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابر ہو گا کیا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اس کا اندازہ کر کے پڑھنا۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا؟ آپ نے فرمایا: اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے (اور وہ بارش کو نہایت تیزی سے پورے علاقے میں پھیلا دیتی ہے)، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اور اس کی بات رد کر دیں گے، لہٰذا وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا مگر اس کے پیچھے پیچھے ان (انکار کرنے والوں) کے مال بھی چلے جائیں گے، ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے، پھر وہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا، انہیں دعوت دے گا، اور اس کی دعوت قبول کریں گے اور اس کی تصدیق کریں گے، تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ آسمان بارش برسائے گا، وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، زمین غلہ اگائے گی، ان کے چرنے والے جانور شام کو جب (چراگاہ سے) واپس آئیں گے، تو ان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے، ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طور پر (دودھ سے) بھرے ہوں گے، پھر وہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا: اپنا خزانہ نکال، پھر وہاں سے واپس ہو گا تو اس زمین کے خزانے شہد کی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے، پھر وہ ایک بھرپور اور مکمل جوان کو بلائے گا اور تلوار سے مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا۔ پھر اسے بلائے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آ جائے گا، پس دجال اسی حالت میں ہو گا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پانی ٹپکے گا اور جب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی، ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مر جائے گا اور ان کی سانس کی بھاپ ان کی حد نگاہ تک محسوس کی جائے گی، وہ دجال کو ڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لد ۳؎ کے پاس پا لیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ جتنا چاہے گا عیسیٰ علیہ السلام ٹھہریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے کچھ ایسے بندے اتارے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ویسے ہی ہوں گے جیسا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: «من كل حدب ينسلون» ہر بلندی سے پھیل پڑیں گے (الأنبياء: ۹۶) ان کا پہلا گروہ (شام کی) بحیرہ طبریہ (نامی جھیل) سے گزرے گا اور اس کا تمام پانی پی جائے گا، پھر اس سے ان کا دوسرا گروہ گزرے گا تو کہے گا: اس میں کبھی پانی تھا ہی نہیں، پھر وہ لوگ چلتے رہیں گے یہاں تک کہ جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو قتل کر دیا اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں، چنانچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کر کے ان کے پاس واپس کر دے گا، (اس عرصے میں) عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور ان کے ساتھی گھرے رہیں گے، یہاں تک کہ (شدید قحط سالی کی وجہ سے) اس وقت بیل کی ایک سری ان کے لیے تمہارے سو دینار سے بہتر معلوم ہو گی (چیزیں اس قدر مہنگی ہوں گی)، پھر عیسیٰ بن مریم اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا، جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مر جائیں گے، عیسیٰ اور ان کے ساتھی (پہاڑ سے) اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہو گی جو ان کی لاشوں کی گندگی، سخت بدبو اور خون سے بھری ہوئی نہ ہو، پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کو بھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی، وہ لاشوں کو اٹھا کر گڈھوں میں پھینک دیں گے، مسلمان ان کے کمان، تیر اور ترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ۴؎۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچا اور پکا گھر نہیں روک پائے گا، یہ بارش زمین کو دھو دے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنا پھل نکال اور اپنی برکت واپس لا، چنانچہ اس وقت ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہو گا، اس کے چھلکے سے یہ جماعت سایہ حاصل کرے گی، اور دودھ میں ایسی برکت ہو گی کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کافی ہو گی، اور دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہو گی اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہو گی، لوگ اسی حال میں (کئی سالوں تک) رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو سارے مومنوں کی روح قبض کر لے گی اور باقی لوگ گدھوں کی طرح کھلے عام زنا کریں گے، پھر انہیں لوگوں پر قیامت ہو گی ۵؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف عبدالرحمٰن یزید بن جابر کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 20 (2937)، سنن ابی داود/ الملاحم 14 (4321)، سنن ابن ماجہ/الفتن 33 (4075) (تحفة الأشراف: 11711)، و مسند احمد (4/181) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «فخض فيه ورفع» کے معنی و مطلب کے بارے میں دو قول ہیں: ایک «خفض»، «حقر» کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں کانا پیدا کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا، بلکہ ایسا کرنے سے عاجز ہو گا، اس کا معاملہ کمزور پڑ جائے گا، اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع و مویدین کا قتل ہو جائے گا، اور «رفع» کے معنی اس کے شر اور فتنے کی وسعت ہے اور یہ کہ اس کے پاس جو خرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگوں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی، یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا، دوسرا معنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تذکرہ اتنا زیادہ کیا کہ لمبی گفتگو کے بعد آپ کی آواز کم ہو گئی تاکہ دوران گفتگو آپ آرام فرما لیں پھر سب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلند ہو گئی۔
۲؎: یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔
۳؎: لُد: بیت المقدس کے قریب ایک شہر ہے، النہایہ فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے، (یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے)
۴؎: ان کے اسلحہ کی مقدار اس قدر زیادہ ہو گی، یا مسلمانوں کی تعداد اس وقت اس قدر کم ہو گی۔
۵؎: اس حدیث میں علامات قیامت، خروج دجال، نزول عیسیٰ بن مریم، یاجوج و ماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے، دجال کی فتنہ انگیزیوں، یاجوج و ماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کا بیان ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (481) ، تخريج فضائل الشام (25)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2240 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2240  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فخض فيه ورفع کے معنی ومطلب کے بارے میں دوقول ہیں:
ایک (خفض)،
(حقر)کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے،
حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں کانا پیداکیا،
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا،
بلکہ ایسا کرنے سے عاجز ہوگا،
اس کا معاملہ کمزور پڑ جائے گا،
اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع ومویدین کا قتل ہو جائے گا،
اور (رفع) کے معنی اس کے شراور فتنے کی وسعت ہے اور یہ کہ اس کے پاس جوخرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگو ں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی،
یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا،
دوسرا معنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کا تذکرہ اتنا زیادہ کیا کہ لمبی گفتگو کے بعد آپﷺ کی آواز کم ہوگئی تاکہ دورانِ گفتگو آپﷺ آرام فرما لیں پھرسب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلند ہو گئی۔

2؎:
یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔

3؎:
لُد:
بیت المقدس کے قریب ایک شہرہے،
النہایة فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے،
یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے،
(یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے) 4 ؎:
اُن کے اسلحہ کی مقدار اس قدر زیادہ ہو گی،
یا مسلمانوں کی تعداد اُس وقت اس قدرکم ہو گی۔

5؎:
اس حدیث میں علامات قیامت،
خروج دجال،
نزول عیسیٰ بن مریم،
یاجوج وماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے،
دجال کی فتنہ انگیزیوں،
یاجوج وماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کا بیان ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2240   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4075  
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔`
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: تم لوگوں کا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4075]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سورہ کہف کے پہلے رکوع کی تلاوت دجال کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے۔

(2)
علماء کو چاہیے کہ علامات قیامت کی صحیح احادیث عوام کو سنائیں خاص طور پر دجال کے بارے میں انھیں باخبر کریں تاکہ وہ فتنے سے بچ سکیں۔

(3)
دجال کے حکم پر بارش کا برسنا یا قحط پڑجانا اسی طرح ایک آزمائش ہے جس طرح اس کی جنت اور جہنم یا اس کا مردے کو زندہ کرنا۔

(4)
دجال کے ظہور کے زمانے میں دن رات کا موجودہ نظام محدود مدت کے لیے معطل ہوجائے گا۔

(5)
ایک سال کے برابر لمبے دن میں، وقت کا اندازہ کر کے، پورے سال کی نمازیں ادا کرنے کا حکم ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے پاس ایسے ذرائع ہوں گے جن سے وہ وقت کا صحیح اندازہ کرسکیں گے اس میں گھڑی کی ایجاد کی پیش گوئی ہے۔

(6)
اس حدیث سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ان علاقوں کے بارے میں بھی جہاں سال کے بعض حصوں میں دن رات کا معروف نظام نہیں رہتا۔
ایسے علاقوں میں نماز اور روزے کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کیا جائے۔
اگر کوئی شخص خلا میں جائے تو وہاں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھے۔

(7)
حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔
اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
اور یہ بھی متفق علیہ مسئلہ ہے کہ وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔
اس سے صرف مرزا غلام قادیانی اور اس کے پیروکا ر اختلاف رکھتے ہیں۔

(8)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہت سے معاملات معجزانہ کیفیت رکھتے ہیں۔
ان میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے کافروں نے انھیں شہید کرنے کی کوشش کی تھی اب کافروں کا ان کی حد نظر میں زندہ رہنا ممکن نہ ہوگا۔

(9)
لد ایک شہر ہے جو فلسطین (موجودہ یہودی ریاست اسرائیل)
میں واقع ہے۔
وہاں ہوائی اڈہ بھی ہے۔
ممکن ہے کہ شہر کے دروازے سے مراد اس کا ہوائی اڈہ ہو جہاں دجال فرار ہونے کی کوشش میں حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے قابو میں آجائے۔

(10)
دجال بھی مسیح کہلاتا ہے مگر وہ جھوٹا مسیح ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام سچے مسیح ہیں جن کے ہاتھ سے وہ جہنم میں رسید ہوگا۔

(11)
یاجوج ماجوج جسمانی لحاظ سے قوی ہیکل ہونگےاور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہونگےاس لیے عام انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

(12)
یاجوج ماجوج اس وقت کہاں ہیں؟ یہ معلوم نہیں تاہم وہ یقیناًموجود ہیں اس میں شک نہیں۔

(13)
اہل چین یا اہل روس یا اس کے علاوہ کسی ملک کے باسی لوگوں کو یاجوج ماجوج قراردینا درست نہیں۔

(14)
یاجوج ماجوج اچانک ختم ہوجائینگے۔

(15)
یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد نباتات اور حیوانات کی پیداوار میں بہت زیادہ برکت ہوگی۔

(16)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی۔

(17)
ان کے بعد ان کے خلفاء ہونگے مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی آخر ایک خاص ہوا سے بچے کھچے مسلمان فوت ہوجائیں گے۔

(18)
قیامت کے ابتدائی مراحل مثلاً:
صور پھونکے جانے پر سب کا مرجانا وغیرہ بہت شدید مراحل ہیں۔
اللہ تعالی مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4075   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7373  
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:7373]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فخفض فيه ورافع:
اس کے بارے میں طویل گفتگو فرماتے ہوئے،
آواز کو کبھی پست کیا اور کبھی بلند کیا،
یا کبھی اس کے مقام ومرتبہ کی تحقیر کی کہ وہ کانا ہے،
اللہ کے نزدیک وہ بہت حقیر ہے،
وہ صرف ایک آدمی کو قتل کرسکے گا،
بعد میں قتل ہوگا،
اس کے ساتھی شکست کھا کر قتل ہوجائیں گے اور کبھی اس کے فتنہ اور آزمائش کو بڑا بیان کیااور اس سے خرق عادت کام سرزد ہوں گے،
اس لیے ہر نبی نے اس کے خطرہ سے ڈرایا ہے۔
(2)
غيرالدجال اخوفني عليكم یعنی دجال کے سوا فتنے مجھے زیادہ خوفناک محسوس ہوتے ہیں،
جیسے باہمی خانہ جنگی،
دنیا کی حرص وآز،
گمراہ کرنے والے ضلالت پیشہ رہنما۔
(3)
انا حجيجه:
میں اس کے ساتھ دلیل وحجت سے بات کروں گا،
یہ بات آپ نے محض علی سبیل الفرض کہی تھی،
کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے شاید وہ نموداور ہوچکا ہے،
وگرنہ یہ تو طے ہے،
اس کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا،
جیسا کہ آگے آرہا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کریں گے۔
(4)
كاني لمشبهه:
چونکہ دجال جیسی قبیح اور بدشکل،
کسی کی شکل نہیں ہے،
اس لیے آپ نے كاني،
گویا کا لفظ استعمال کیا۔
(5)
فليقرا عليه فواتح سورة الكهف:
اس کے فتنہ سے بچنے کے لیے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے،
دجال کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے ابتدائی تین آیات کا پڑھنا کافی ہے،
اگریہ یا،
دس آیات کرنی چاہییں،
کیونکہ بعد والی آیات میں انسان کی آزمائش وابتلا کا تذکرہ ہے اور زمینی اشیاء کی دلکشی اور رعنائی کا امتحان مقصد کے لیے بیان ہے،
(6)
خلة:
سنگریزوں والاراستہ،
راستہ۔
(7)
عاث:
ماضی کا صیغہ ہے،
کیونکہ اس کے فساد کا وقوع یقینی ہے کہ وہ بہت جلد فساد پھیلائے گا۔
(8)
اقدرواله قدره:
دن کا اندازہ لگاؤ،
جتنی دیر کے بعد ان دنوں نماز پڑھتے ہو،
اتنی دیر کے بعد نمازیں پڑھتے رہنا،
کیونکہ اللہ خرق عادت کے طور پر،
ابتدائی تین دن،
سال،
مہینہ اور ہفتہ کے برابر کردےگا،
سورج یا زمین کی رفتار انتہائی سست کردےگا،
یا وہ ایسے علاقے سے نمودار ہوگا،
جہاں دن رات کا باربار آنا کم ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
جن علاقوں میں دن رات عام طریقہ کے مطابق نہیں ہیں،
وہ نماز اور روزہ کے لیے اندازہ کرلیں گے اور جن علاقوں میں دن اور رات چھ چھ ماہ کے ہیں،
وہاں دن،
رات میں صرف پانچ نمازیں کافی نہیں ہوں گی،
بلکہ چوبیس گھنٹوں میں،
پانچ نمازیں پڑھنی ہوں گی اور اس کے مطابق روزہ رکھنا ہوگا،
اس کے لیے اپنی قریبی علاقہ کے دن،
رات کو سامنے رکھا جائے گا۔
(9)
كالغيث استدبرته الريح:
اس بادلوں کی طرح جس کو ہوا اڑاتی ہے،
یعنی وہ مسافت بہت جلد طے کرے گا،
لوگوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے اس سے خارق عادت بہت سے کام سرزد ہوں گے اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ہوگا۔
(10)
فيصبحون ممحلين:
وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے۔
(11)
يعاسيب،
يعسوب کی جمع ہے،
شہد کی مکھیوں کے سردار،
جس کے پیچھے وہ اڑتی ہیں۔
(12)
جزلة،
ٹکڑا،
(13)
رمية الغرض:
تیر کے نشانہ کا فاصلہ،
دونوں ٹکڑوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوگا۔
(14)
ينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق:
وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے،
(15)
بين مهرودتين:
دوزرد چادروں میں،
یعنی ان کا جوڑا انتہائی خوبصورت ہوگا،
(16)
جمان:
چاندی کے دانے یامنکے،
بقول حافظ ابن کثیر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گررہے تھے،
اس حالت میں وہ اتریں گے،
جو اس بات کی علامت ہوگی کہ آپ زندہ رہے ہیں،
(17)
فلا يحل لكافر ان يجدريح نفسه الامات،
جس کافر تک عیسی علیہ السلام کے سانس کی مہک پہنچے گی،
وہ موت سے بچ نہیں سکے گا،
اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ فوراً مرجائے گا،
بلکہ مقصد یہ ہے کہ اب وہ زندہ نہیں رہ سکے گا اور دجال کو خصوصی طور پر،
آپ قتل کریں گے،
تاکہ لوگوں کو اس کا خون اپنے بھالے پر دکھائیں،
وگرنہ وہ بھی آپ کے سانس کی بو سے ہلاک ہوجاتا،
اس لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
(18)
لد:
آج کل اسرائیل کا ہوائی اڈہ ہے اور یہ شہر فلسطین کے علاقہ میں،
بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔
(19)
يمسح عن وجوههم:
عزت وتکریم کے لیے،
سفر کی وجہ سے ان کے چہروں پر جو گردوغبار ہوگی،
اس کو صاف کریں گے،
یا دجال کے قتل کی خبردےکر،
تبرک وبرکت کے لیے،
غم وحزن اور خوف دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیریں گے۔
(20)
عبادالي:
اپنے تکوینی اور تقدیری حکم کو پورا کرنے کے لیے اپنے بندے نکالے ہیں کہ لايدان لاحد بقتالهم،
ان سے جنگ کے لیے کسی کے دوہاتھ یعنی قوت وطاقت نہیں ہے اور جب عباد سے مراد نیک بندے ہو تو ان کی اللہ کی طرف بلاصلہ وواسطہ اضافت کی جاتی ہے،
جیسےعباد الرحمن،
عبده،
عبدالله،
اگر تکوینی حکومت کے پابند مراد ہوں،
جو کافروسرکش ہوتے ہیں تو پھراضافہ کےلیےلام کاواسطہ لایاجاتاہے،
جیسےفرمایا،
بعثناعليكم عبادالنااور اس حدیث میں عبادالي،
اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے ہے۔
(21)
حرزعبادي:
میرےبندوں کومحفوظ کرو،
پناہ دوں،
(طورپرلےجاکر) (22)
حدب:
ٹیلہ،
بلندجگہ،
(23)
ينسلون،
دوڑ رہے ہوں گے،
(24)
بحيره طبرية،
اردن کےعلاقہ میں ہے۔
(25)
كجريةطبرية،
شہرہے جس کے قریب بحیرہ واقع ہے اورامام طبرانی،
اس شہر کی طرف منسوب ہیں۔
(26)
كان بهذه مرة ماء:
علامات ونشانات دیکھ کر کہیں گے،
کبھی یہاں پانی رہاہے۔
جبل طورپر عیسیٰ علیہ السلام اور ان ساتھ محصور ہوجائیں گے تو غذائی قلت کی بنا پر،
گائے یا بیل کا سرجو عام گوشت سے سستا ہوتا ہے،
اس کی قیمت بھی سو(100)
دینار تک پہنچ جائےگی۔
(27)
نغف:
وہ کیڑاجواونٹوں اور بکریوں کے ناکوں(نتھنوں)
میں پیدا ہوتاہے۔
(28)
فرسي:
فريس کی جمع ہے،
ہلاک ہونے والے،
بیک وقت سب سے غضب الٰہی کا شکار(فریسہ)
ہوجائیں گے۔
(29)
زهم:
چکناہٹ،
بدبو کے معنی میں بھی آجاتا ہے،
(30)
لايكن منه:
اس بارش سے کوئی اوٹ یا چھت کسی کو بچا نہیں سکے گی،
بارش ہرجگہ،
چھت ٹپک کربھی پہنچ جائے گی،
(31)
زلفةشيتة:
ڈیم۔
(32)
فئام:
گروہ،
جماعت،
قبیلہ کےنیچےبطن (خاندان)
اوراس کے نیچے،
(33)
فخذ،
کنبہ ایک آدمی کا اہل وعیال۔
(34)
تهارج:
اختلاط،
میل ملاپ،
مراد جنسی تعلقات ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7373