صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
59. بَابُ نَاقَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2871
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَتْ نَاقَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُقَالُ لَهَا: الْعَضْبَاءُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق ابراہیم نے بیان کیا، ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام عضباء تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2871 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2871
حدیث حاشیہ:
مؤرخین اسلام اس بارے میں متفق نہیں ہیں کہ قصواء‘ جدعاء اور عضباء یہ آنحضرتﷺ کی تین اونٹنیوں کے نام تھے یا اونٹنی صرف ایک تھی اور نام اس کے تین تھے۔
مسور بن مخرمہ والی تعلیق کو ابوداود نے وصل کیا ہے۔
کہتے ہیں قصواء اور عضباء ایک ہی اونٹنی کے نام تھے اور اسی کا نام جدعاء بھی تھا اور شہباء بھی۔
وحی اترنے کے وقت آپ کو یہی اونٹنی سنبھالتی اور کوئی اونٹنی نہ اٹھا سکتی تھی‘ اس کے سوا آپ ﷺ کی اور بھی کئی اونٹنیاں تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2871
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3618
´مسابقت (آگے بڑھنے کے مقابلے) کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضباء نامی ایک اونٹنی تھی وہ ہارتی نہ تھی، اتفاقاً ایک اعرابی (دیہاتی) اپنے جوان اونٹ پر آیا اور وہ مقابلے میں عضباء سے بازی لے گیا، یہ بات (ہار) مسلمانوں کو بڑی ناگوار گزری۔ جب آپ نے لوگوں کے چہروں کی ناگواری و رنجیدگی دیکھی تو لوگ خود بول پڑے: اللہ کے رسول! عضباء شکست کھا گئی (اور ہمیں اس کا رنج ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کے حق (و اختیار) کی بات ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3618]
اردو حاشہ:
(1) عضباء، لغوی لحاظ سے اس کے معنی ”کن کٹی“ ہیں مگر آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی بلکہ اس کا عرفی نام عضباء تھا۔ ممکن ہے کان زیادہ چھوٹے ہوں‘ تشبیہاً عضباء کہہ دیا گیا ہو۔
(2) ”نیچا دکھائے گا“ کیونکہ ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾ (الرحمن: 55:26) ”دنیا کی ہرچیز زوال پذیر ہے۔“ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز ہمیشہ عروج کی حالت میں رہے۔ ہر جوان نے بوڑھا ہونا ہے اور ہر قوی نے کمزور ہونا ہے۔ ہر تیز نے سست ہوتا ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔
(3) صحابہؓ کے دلوں میں اللہ کے رسول ﷺ کی عزت وعظمت اتنی زیادہ تھی کہ وہ آپ کی اونٹنی پر بھی کسی کی سبقت لے جانا پسند نہیں کرتے تھے جبکہ بدوحضرات میں بے ادبی اور سختی پائی جاتی تھی۔
(4) حدیث تواضع اور انکسار پر ابھارتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تواضع‘ انکسار اور حسن خلق کی مثال ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3618
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6501
6501. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا۔ کوئی جانور بھی اس کے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا ایک دیہاتی اپنے اونٹ پر سوار آیا اور اس سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بہت شاق گزرا اور کہنے لگے: افسوس! عضباء پیچھے رہ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے خود پر لازم کرلیا ہے کہ دنیا میں وہ کسی چیز کو بلند کرتا ہے تو اسے نیچے بھی لاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6501]
حدیث حاشیہ:
ترقی کے ساتھ تنزلی اور اوبار کے ساتھ اقبال لگا ہوا ہے ﴿تلكَ الأیَّامُ نُداوِلُھا بینَ النَّاسِ﴾ (آل عمران: 160)
کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6501
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2872
2872. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا، دوڑ میں اس سے آگے کوئی اونٹنی نہیں بڑھ سکتی تھی۔ (راوی حدیث) حمید نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ اس سے آگےبڑھا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ آخر ایک دیہاتی ایک نوجوان اونٹ پر سوار ہوکر آیا اور اس سے آگے نکل گیا۔ مسلمانوں پر یہ امر ناگوار گزرا حتیٰ کہ آپ ﷺ نے ان کی ناگواری محسوس کی تو فرمایا: ”اللہ پر حق ہے کہ دنیا کی جو چیز بلند ہے اسے پست کردے۔“ موسیٰ نے حماد سے، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے حضرت انس ؓسے اور انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو طوالت سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2872]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔
اونٹ‘ گھوڑے کا نام رکھنا‘ ان میں دوڑ کرانا اور بطور قاعدہ کلیہ یہ کہ دنیا میں بڑھنے والی اور مغرور ہونے والی طاقتوں کو اللہ ضرور ایک نہ ایک دن نیچا دکھاتا ہے۔
اس حدیث سے یہ ساری باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2872
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2872
2872. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا، دوڑ میں اس سے آگے کوئی اونٹنی نہیں بڑھ سکتی تھی۔ (راوی حدیث) حمید نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ اس سے آگےبڑھا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ آخر ایک دیہاتی ایک نوجوان اونٹ پر سوار ہوکر آیا اور اس سے آگے نکل گیا۔ مسلمانوں پر یہ امر ناگوار گزرا حتیٰ کہ آپ ﷺ نے ان کی ناگواری محسوس کی تو فرمایا: ”اللہ پر حق ہے کہ دنیا کی جو چیز بلند ہے اسے پست کردے۔“ موسیٰ نے حماد سے، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے حضرت انس ؓسے اور انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو طوالت سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2872]
حدیث حاشیہ:
1۔
سیرت نگار حضرات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ عضباء اور قصواء دو اونٹنیوں کے نام ہیں یا اونٹنی صرف ایک تھی اور نام اس کے دو تھے۔
اس کے علاوہ دوسری اونٹنیوں کا ذکر بھی کتب سیرت میں ملتا ہے۔
2۔
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی چیز آخر زوال پذیر ہے لہٰذا اس میں دلچسپی رکھنے کی بجائے اپنی آخرت بہتر بنانے کی فکر کرنی چاہیےکہا جاتا ہے (ہر کمالے راز والے)
”ہر کمال کو زوال ہے۔
“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2872
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6501
6501. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا۔ کوئی جانور بھی اس کے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا ایک دیہاتی اپنے اونٹ پر سوار آیا اور اس سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بہت شاق گزرا اور کہنے لگے: افسوس! عضباء پیچھے رہ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے خود پر لازم کرلیا ہے کہ دنیا میں وہ کسی چیز کو بلند کرتا ہے تو اسے نیچے بھی لاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6501]
حدیث حاشیہ:
تواضع کے معنی ہیں:
انکسار و عاجزی۔
فخر و غرور سے بچنا، دوسروں کا احترام، کم درجے کے لوگوں سے میل ملاپ اور ان سے حسن سلوک کو شان کے خلاف نہ سمجھنا، تواضع کے ثمرات ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے تواضع کا رویہ اختیار کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ تواضع اختیار کرو حتی کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے۔
“ (صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7210 (2865)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی عضباء کے متعلق جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ تواضع ہی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6501