سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
30. باب مَا جَاءَ سَتَكُونُ فِتَنٌ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ
باب: ان فتنوں کا بیان جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے۔
حدیث نمبر: 2199
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلٌ سَأَلَهُ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَمْنَعُونَا حَقَّنَا وَيَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اس وقت آپ سے ایک آدمی سوال کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: آپ بتائیے اگر ہمارے اوپر ایسے حکام الحکمرانی کریں جو ہمارا حق نہ دیں اور اپنے حق کا مطالبہ کریں؟ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان کا حکم سنو اور ان کی اطاعت کرو، اس لیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے جواب دہ ہیں اور تم اپنی ذمہ داریوں کے جواب دہ ہو
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 12 (1846) (تحفة الأشراف: 11772) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اگر حکام مال غنیمت وغیرہ میں سے تمہارا حق نہ دیں، پھر بھی تم ان کی اطاعت کرو، ان کے خلاف سر مت اٹھاؤ تمہارا حق تمہیں آخرت میں ایسے ہی ملے گا جس طرح ان ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم کی سزا ملے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2199 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2199
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ اگر حکام مال غنیمت وغیرہ میں سے تمہارا حق نہ دیں،
پھر بھی تم ان کی اطاعت کرو،
ان کے خلاف سرمت اٹھاؤ تمہارا حق تمہیں آخرت میں ایسے ہی ملے گا جس طرح ان ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم کی سزا ملے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2199
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4782
علقمہ بن وائل حضرمی اپنے باپ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ اے نبی اللہ! بتائیے، اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کریں اور ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھیں تو آپ اس صورت میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا، اس نے پھر سوال کیا، تو آپ نے اس سے بے رخی اختیار کی، پھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4782]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر حکمران اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنی رعایا کے حقوق ادا نہیں کرتے تو اس کا وبال اور گناہ ان پر ہو گا اور اگر تم اپنے فرائض (سننا اور ماننا)
ادا نہیں کرتے،
تو اس کا وبال تم پر پڑے گا،
اس لیے تمہیں اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور وہ چونکہ اس کی اجازت چاہتا تھا،
کیونکہ اس کے سوال کا انداز اور لب و لہجہ اس پر دلالت کرتا تھا،
اس لیے آپﷺ نے اس سے اعراض فرمایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4782