Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
13. باب مَا جَاءَ أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
باب: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے۔
حدیث نمبر: 2174
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ أَبُو يَزِيدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الملاحم 17 (4344)، سنن ابن ماجہ/الفتن 20 (4011)، و مسند احمد 30/19، 61) (تحفة الأشراف: 4234) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”عطیہ عوفي“ ضعیف ہیں۔دیکھیے: الصحیحة: 491)»

وضاحت: ۱؎: یہ سب سے بہتر جہاد اس وجہ سے ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت جو ڈر سوار رہتا ہے، وہ اپنے اندر جیتنے اور ہارنے سے متعلق دونوں صفتوں کو سمیٹے ہوئے ہے، جب کہ کسی جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے میں صرف مغلوبیت کا خوف طاری رہتا ہے، اسی لیے اسے سب سے بہتر جہاد کہا گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4010)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2174 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2174  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ سب سے بہترجہاد اس وجہ سے ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت جو ڈرسوار رہتا ہے،
وہ اپنے اندر جیتنے اورہارنے سے متعلق دونوں صفتوں کو سمیٹے ہوئے ہے،
جب کہ کسی جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے میں صرف مغلوبیت کا خوف طاری رہتا ہے،
اسی لیے اسے سب سے بہترجہاد کہا گیا۔

نوٹ:

 متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کے راوی عطیة عوفي ضعیف ہیں۔
دیکھیے: (الصحیحة:
 491)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2174   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4344  
´امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4344]
فوائد ومسائل:
جہاں معروف معنی میں حاکم اور سلطان ظالم و جابر ہوتے ہیں حق کی بات اُنہیں گوارا نہیں ہوتی وہاں معاشرہ اور سو سائٹی بھی سلطان جائر کے معنی میں ہے کہ صاحبِ ایمان اپنے بھائی بندوں اہلِ معاشرہ کی رسم و ریت کے بر خلاف جرات اور ثابت قدمی کے ساتھ حق کی بات کہے اور حق پر عمل کر کے دکھائے۔
یہ بہت بڑا جہاد ہے۔
بعض اوقات حکام کے سامنے بات کہنا آسان مگر برادری اور سو سائٹی کی ریت اور ان کے چلن کا مقابلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
مثلاََ معروف اسلامی شعائر ڈاڑھی بڑھانا چادر شلوار کا ٹخنوں سے اوپر رکھنا اور عورت کا پردہ کرنا ایسے اعمال ہیں کہ کو ئی بھی صاحبِ علم و ایمان ان کی وجوب سے جاہل نہیں، مگر معاشرے کی روایت کے خلاف سمجھنا کچھ لوگ انتہا ئی گراں سمجھتے ہیں۔
۔
۔
۔
واللہ المستعان!
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4344   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4011  
´امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر جہاد، ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4011]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
مسلمان بادشاہ ظالم بھی ہوتو اس کے خاف بغاوت نہیں کی جاتی لیکن اسے ظلم سے روکنا ضروری ہے۔

(2)
چونکہ ظالم بادشاہ کا مقابلہ اس طرح نہیں کیا جاتا جس طرح کافروں سے جنگ کی جاتی ہے۔
اس لیے خالی ہاتھ محض دلائل کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر اسے تبلیغ کرنا زیادہ جرات و بہادری کا کام ہے کیونکہ عام طور پر ایسے افراد سے یہی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ قتل کردیگا یا قید کر کے طرح طرح کی تکلیفیں دے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4011