Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تقدیر کے احکام و مسائل
11. باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّفْسَ تَمُوتُ حَيْثُ مَا كُتِبَ لَهَا
باب: موت اسی جگہ آتی ہے جہاں مقدر ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 2146
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ، جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي عَزَّةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا يُعْرَفُ لِمَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ.
مطر بن عکامس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کر دیتا ہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت و ضرورت پیدا کر دیتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- مطر بن عکامس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہیں معلوم ہے،
۳- اس باب میں ابوعزہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11284) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: چنانچہ بندہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے زمین کے اس حصہ کی جانب سفر کرتا ہے جہاں اللہ نے اس کی موت اس کے لیے مقدر کر رکھی ہے، پھر وہاں پہنچ کر اس کی موت ہوتی ہے، «وما تدري نفس بأي أرض تموت» اور کسی جان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اس کی موت کسی سر زمین میں آئے گی (لقمان: ۳۴)، اسی طرف اشارہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں موت آئے گی کسی کو کچھ خبر نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (110)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2146 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2146  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چنانچہ بندہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے زمین کے اس حصہ کی جانب سفر کرتا ہے جہاں اللہ نے اس کی موت اس کے لیے مقدر کر رکھی ہے،
پھر وہاں پہنچ کر اس کی موت ہوتی ہے،
  ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾  (لقمان: 34) (اورکسی جان کو اس بات کا علم نہیں ہوتاکہ اُس کی موت کسی سرزمین میں آئے گی) اسی طرف اشارہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں موت آئے گی کسی کو کچھ خبر نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2146   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 110  
´چھ قسم کے ملعون`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن مطر بن عكام قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا مطر بن عکامیں رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ کسی شخص کے بارے میں فیصلہ فرماتا ہے کہ وہ فلاں علاقے میں فوت ہو گا تو اللہ اس کو اس علاقے کی طرف (جانے کے) سبب بنا دیتا ہے۔ (احمد، ترمذی) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 110]
تخریج:
[سنن ترمذي 2146]

تحقیق الحدیث:
صحیح ہے۔
◈ اسے حاکم [1؍42 ح125، 126] اور ذہبی نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
◈ اس میں ابواسحاق السبیعی مدلس راوی ہیں،
لیکن سنن الترمذی [2147] میں اس کا بعینہ اسی معنی کا صحیح شاہد بھی ہے، جس کے بارے میں امام ترمذی نے کہا: «هٰذا حديث صحيح» اس کی سند صحیح ہے۔
اور اسے ابن حبان [الموارد: 1815] حاکم [42/1] اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ جس آدمی کے مرنے کا تقدیر میں جو وقت اور جگہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے وہ وہاں پہنچ جاتا ہے۔
➋ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔
➌ بعض نسخوں میں «عكامس» کی جگہ «عكام» لکھا ہوا ہے جبکہ صحیح «عكامس» ہے جیسا کہ مشکوٰۃ درسی نسخہ ہند ص [22] میں ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 110