Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
52. بَابُ مَنْ قَادَ دَابَّةَ غَيْرِهِ فِي الْحَرْبِ:
باب: اگر کوئی لڑائی میں دوسرے کے جانور کو کھینچ کر چلائے۔
حدیث نمبر: 2864
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ رَجُلٌ: لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَفَرَرْتُمْ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ: لَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يَفِرَّ إِنَّ هَوَازِنَ كَانُوا قَوْمًا رُمَاةً وَإِنَّا لَمَّا لَقِينَاهُمْ حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ فَانْهَزَمُوا، فَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى الْغَنَائِمِ وَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّهَامِ فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَفِرَّ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَإِنَّهُ لَعَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَإِنَّأَبَا سُفْيَانَ آخِذٌ بِلِجَامِهَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سہل بن یوسف نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے کہ ایک شخص نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حنین کی لڑائی میں آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے؟ براء رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے۔ ہوازن کے لوگ (جن سے اس لڑائی میں مقابلہ تھا) بڑے تیرانداز تھے، جب ہمارا ان سے سامنا ہوا تو شروع میں ہم نے حملہ کر کے انہیں شکست دے دی، پھر مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے تیروں کی ہم پر بارش شروع کر دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہٹے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شعر فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب» میں نبی ہوں اس میں جھوٹ کا کوئی دخل نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2864 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2864  
حدیث حاشیہ:
یعنی میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور اللہ نے جو مجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا تھا وہ برحق ہے‘ اس لئے میں بھاگ جاؤں؟ یہ نہیں ہوسکتا۔
مولانا وحید الزماں مرحوم نے اس کا ترجمہ شعرمیں یوں کیا ہے:
ہوں میں پیغمبر بلا شک و خطر اور عبدالمطلب کا ہوں پسر مزید تفصیل جنگ حنین کے حالات میں آئے گی۔
إن شاء اللہ تعالیٰ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2864   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2864  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ دوران جہاد میں کسی دوسرے سے مدد لی جا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن غنیمت میں صرف گھوڑے کے مالک کو حصہ ملے گا۔
لگام تھامنے سے اس کا استحقاق ثابت نہیں ہو گا۔
یہ خدمت گزاری فی سبیل اللہ شمار ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2864   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4615  
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا اے ابو عمارہ! کیا تم حنین کے دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت نہیں دکھائی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوجوان ساتھی اور جلد باز، نہتے، جن کے پاس دفاعی اسلحہ نہ تھا یا زیادہ اسلحہ نہ تھا، آگے بڑھے اور انتہائی ماہر تیر انداز لوگوں سے، جن کا کوئی تیر نشانہ سے چوکتا نہیں تھا یعنی ہوازن اور بنو نصر سے بھڑ گئے اور انہوں نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4615]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَخِفَّائُهُم:
خفيف کی جمع ہے،
جلد باز،
جوشیلہ۔
(2)
حُسَّر:
حاسر کی جمع ہے،
ننگے سر مراد ہے،
جن کے پاس دفاعی اسلحہ نہ تھا۔
(3)
رَشَقُوهُم رَشقًا:
انہوں نے انتہائی زور سے تیر اندازی کی۔
فوائد ومسائل:
چونکہ جنگ حنین میں سب لوگ نہیں بھاگے تھے،
خاص طور پر لشکر کا سپہ سالار،
دشمن کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا،
آگے بڑھ رہا تھا،
اس لیے حضرت براء رضی اللہ عنہ نے،
بعض صحابہ کے بھاگنے کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ وہ بھی آواز سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹ آئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت،
والد کے بجائے عبدالمطلب کی طرف کی،
کیونکہ وہ معروف و مشہور شخصیت تھی اور لوگوں میں یہ بات پھیلی ہوئی تھی کہ عبدالمطلب کی اولاد میں ایک نبی ہو گا،
جو غالب آئے گا،
اور ایک عظیم مقام و مرتبہ کا حامل ہو گا،
اس طرح آپ نے ان کو یاد دلایا،
میں وہی ہوں،
اس لیے غالب آ کر رہوں گا،
میدان سے بھاگنے والا نہیں ہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4615   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4616  
ابو اسحاق سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگا، کیا تم حنین کے دن بھاگ گئے تھے؟ اے ابو عمارۃ رضی اللہ تعالی عنہ تو انہوں نے جواب دیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں، آپﷺ نے پیٹھ نہیں دکھائی، لیکن کچھ جلد باز لوگ، غیر مسلح اس ہوازن قبیلہ کی طرف چلے اور وہ تیر انداز لوگ تھے تو انہوں نے ان پر تیروں کی باڑھ اس طرح ماری گویا وہ ٹڈی دل ہے تو یہ لوگ سامنے سے ہٹ گئے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4616]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رجل جراد:
ٹڈی دل،
ٹڈیوں کی جماعت و لشکر۔
(2)
انكَشَفُوا:
بکھر گئے یا شکست کھا گئے۔
(3)
اِحمَرَّ البَأسُ:
لڑائی سرخ ہو گئی،
یعنی زور پکڑ گئی،
شدت اختیار کر گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4616   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4617  
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک قیسی آدمی نے سوال کیا، کیا تم حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ تو حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں بھاگے تھے اور ہوازن کے لوگ ماہر تیر انداز تھے اور ہم نے جب ان پر حملہ کیا تو وہ شکست کھا گئے اور ہم غنیمتوں پر ٹوٹ پڑے، انہوں نے ہمارا استقبال تیروں سے کیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4617]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں بھگدڑ اس وقت مچی جب وہ غنیمت سمیٹنے میں مشغول ہو گئے،
حالانکہ یہ صورت حال نہیں ہے،
بھگدڑ پہلے مچی ہے،
پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم رسول اللہﷺ کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن پر حملہ کیا،
جس سے دشمن شکست کھا کر تتر بتر ہو گیا اور مسلمانوں نے اس کا تعاقب کیا،
جیسا کہ تفصیلی روایات میں آیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4617   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4315  
4315. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، ان کے پاس ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا: ابو عمارہ! کیا تم نے حنین کی لڑائی میں پیٹھ پھیر لی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے، البتہ قوم میں جو جلد باز تھے انہوں نے اپنی جلد بازی کا ثبوت دیا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے انہیں اپنے تیروں سے چھلنی کر دیا۔ اس دوران میں حضرت ابو سفیان بن حارث ؓ آپ ﷺ کے سفید خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ فر رہے تھے: میں نبی برحق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4315]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فرماتے ہیں وأبو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب بن ھاشم وھو ابن عم النبی صلی اللہ علیه وسلم و کان إسلامه قبل فتح مکة لأنه خرج إلی النبي فلقیه في الطریق وھو سائر إلی فتح مکة فأسلم و حسن إسلامه وخرج إلی غزوة حنین فکان فیمن ثبت (فتح)
یعنی حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم ؓ نبی کریم ﷺ کے چچا کے بیٹے تھے۔
یہ مکہ فتح ہونے سے پہلے ہی سے نکل کر راستے ہی میں آنحضرت اسے جاکرملے اور اسلام قبول کر لیااور یہ غزوئہ حنین میں ثابت قدم رہے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4315   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4316  
4316. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت براء ؓ سے سنا جبکہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: (ابو عمارہ!) کیا تم لوگوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ حنین کے دن پیٹھ پھیر لی تھی؟ (بھاگ گئے تھے؟) انہوں نے کہا: جہاں تک نبی ﷺ کا تعلق ہے تو آپ نے پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ دراصل قبیلہ ہوازن کے لوگ سخت تیر انداز تھے اور آپ نے اس وقت فرمایا: میں نبی ہوں، جس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4316]
حدیث حاشیہ:
آپ نے اس نازک موقع پر دعا فرمائی یا اللہ! اپنی مدداتار۔
مسلم کی روایت ہے کہ کافروں نے آپ کو گھیر لیاآپ خچر پر سے اتر پڑے پھر خاک کی ایک مٹھی لی اور کافروں کے منہ پر ماری فرمایا ﴿شاھتِ الوُجوہُ﴾ کوئی کافر باقی نہ رہا، جس کی آنکھ میں مٹی نہ گھسی ہو۔
آخر شکست پا کر سب بھاگ نکلے۔
شاھت الوجوہ کا معنی ان کے منہ برے سوئے۔
قسطلانی نے کہا یہ آپ کا ایک بڑا معجزہ ہے۔
چار ہزار کافروں کی آنکھوں پر ایک مٹھی خاک کا ایسا اثر پڑنابالکل عادت کے خلاف ہے۔
(مولا ناوحید الزماں)
مترجم کہتا ہے آنحضرت ﷺ کی شجاعت اور بہادری کو اس معنی سے دریافت کر لینا چاہئیے کہ سارے ساتھی بھاگ نکلے، تیروں کی بوچھار ہو رہی ہے اور آپ خچر پر میدان میں جمے ہوے ہیں۔
ایسے موقعوں پر بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔
اگر آپ کا ہم کوئی معجزہ نہ دیکھیں صرف آپ کے صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ پر غور کرلیں تب بھی آپ کی پیغمبری میں کوئی شک نہیں رہتا۔
شجاعت ایسی، سخاوت ایسی کہ کسی سائل کو محروم نہ کر تے۔
لاکھ روپیہ آیا تو سب کا سب اسی وقت بانٹ دیا۔
ایک روپیہ بھی اپنے لیے نہیں رکھا۔
ایک دفعہ گھر میں ذرا سا سونا رہ گیا تھا تونماز کا سلام پھیر تے ہی تشریف لے گئے اس کو بانٹ دیا پھر سنتیں پڑھیں۔
قوت اور طاقت ایسی کہ نوبیویوں سے ایک ہی رات میں صحبت کر آئے۔
صبر اور تحمل ایسا کہ ایک گنوارنے تلوار کھینچ لی مارڈالنا چاہا مگر آپ نے اس پر قابو پاکراسے معاف کر دیا۔
ایک یہودی عورت نے زہر دے دیا مگر اس کو سزا نہ دی، عفت اور پاکدامنی ایسی کہ کسی غیر عورت پر آنکھ تک نہ اٹھائی۔
کیا یہ صفات کسی ایسے شخص میں جمع ہوسکتی ہیں جو مؤ ید من اللہ اور پیغمبر اور ولی نہ ہو بڑا بیو قوف ہے وہ شخص جوآنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ کو پڑھ کر پھر آپ کی نبو ت میں شک کرے۔
معلوم ہو کہ اس کو عقل سے کوئی واسطہ نہیں۔
ایک جاہل ناتربیت یافتہ قوم میںایسے جامع کمالات اور مہذب اور صاحب علم ومعرفت کا وجود بغیر تائید الہی اور تعلیم خداوندی کے ناممکن ہے پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت موسی اور حضرت عیسی اور حضرت داؤد ؑ تو پیغمبر ہوںاور حضرت محمد پیغمبر نہ ہوں۔
اللہ تعالی اہل کتاب کو انصاف اور سمجھ دے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4316   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4317  
4317. حضرت براء ؓ ہی سے روایت ہے کہ ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا: کیا تم لوگ غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ دراصل قبیلہ ہوازن کے لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے۔ ہم لوگ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ آخر کار ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان ؓ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ فر رہے تھے: میں نبی ہوں اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر راوی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ اپنے خچر سے اتر پڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ:
میدان جنگ میں آنحضرت اثابت قدم رہے اور چا رآدمی آپ کے ساتھ جمے رہے۔
تین بنو ہاشم کے ایک حضرت عباس ؓ آپ کے سامنے تھے اور ابو سفیان ؓ آپ کے خچر کی باگ تھامے ہوئے تھے، عبد اللہ بن مسعود ؓ آپ کے دوسری طرف تھے۔
ترمذی کی روایت میں ہے کہ سو آدمی بھی آپ کے ساتھ نہ رہے اورامام احمد اور حاکم کی روایت میں ہے، ابن مسعود ؓ سے کہ سب لوگ بھاگ نکلے صرف اسی (80)
آدمی مہاجرین اور انصار میں سے آپ کے ساتھ رہ گئے۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ کافروں نے آپ کو گھیر لیاآپ خچر سے اتر پڑے پھر خاک کی ایک مٹھی لی اور کافروں کے منہ پر ماری، کوئی کافر باقی نہ رہا جس کی آنکھ میں مٹی نہ گھسی ہو۔
آخر میں کافر ہار کر سب بھاگ گئے۔
آپ نے فرمایا''شاھت الوجوہ'' یعنی ان کے منہ کالے ہوں۔
یہ بھی آنحضرت اکے بڑے معجزات میں سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4317   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2874  
2874. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا تم نے غزوہ حنین کے موقع پر پیٹھ پھیر لی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! نبی کریم ﷺ میدان جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے تھے، البتہ جلد باز قسم کے لوگ بھاگ پڑے تھے جب قبیلہ ہوازن نے تیروں سے ان کا مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث ؓاس کی لگام پکڑے ہوئے تھے، ان حالات میں نبی کریم ﷺ فرمارہے تھے: میں نبی برحق ہوں اس میں جھوٹ کو کوئی دخل نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2874]
حدیث حاشیہ:
اس میں آنحضرتﷺ کے سفید خچر کا ذکرہے‘ اسی لئے حضرت مجتہد مطلق امام بخاریؒ نے اس حدیث کو یہاں لائے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں مناسب طور پر آباء و اجداد کی بہادری کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
جنگ حنین ماہ شوال ۸ ھ میں قبائل ہوازن و ثقیف کے جارحانہ حملوں کی مدافعت کے لئے لڑی گئی تھی۔
دشمنوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اور اسلامی لشکر بارہ ہزار پر مشتمل تھا اور اسی کثرت تعدادکے گھمنڈ میں اسلام مراحل حزم و احتیاط سے غافل ہوگیا تھا جس کی پاداش فرار کی صورت میں بھگتنی پڑی‘ بعد میں جلد ہی مسلمان سنبھل گئے اور آخر میں مسلمانوں کی ہی فتح ہوئی۔
مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2874   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3042  
3042. حضرت براء ؓسے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ!کیا غزوہ حنین کے موقع پر تم بھاگ گئے تھے؟ حضرت براء ؓنے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن راہ فرار اختیار نہیں کی تھی بلکہ ابو سفیان بن حارث ؓنے آپ کے خچر کی لگام کو پکڑا ہوا تھا، جب مشرکین نے آپ کا گھیراؤ کرلیا تو آپ نے اتر کر یہ کہنا شروع کردیا: میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ راوی کہتے ہیں: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں دیکھا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3042]
حدیث حاشیہ:
جنگ حنین کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔
﴿وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ ﴾ (التوبة: 25)
یعنی حنین کی لڑائی میں تم کو تمہاری کثرت نے گھمنڈو غرور میں ڈال دیا تھا جس کا نتیجہ یہ کہ تمہاری کثرت نے تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچایا اور قبیلہ ہوازن کے تیر اندازوں نے عام مسلمانوں کے منہ موڑ دئیے۔
بعد میں رسول کریمﷺ کی استقامت و بہادری نے اکھڑے ہوئے مجاہدین کے دل بڑھا دئیے اور ذرا سی ہمت و بہادری نے میدان جنگ کا نقشہ بدل دیا‘ اس موقع پر آنحضرتﷺ نے أنا النبيُ لا کَذب کا نعرہ بلند فرمایا‘ میدان جنگ میں ایسے قومی نعرے بلند کرنا مذموم نہیں ہے۔
حضرت امام بخاریؒ کا یہی مقصد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3042   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2874  
2874. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا تم نے غزوہ حنین کے موقع پر پیٹھ پھیر لی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! نبی کریم ﷺ میدان جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے تھے، البتہ جلد باز قسم کے لوگ بھاگ پڑے تھے جب قبیلہ ہوازن نے تیروں سے ان کا مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث ؓاس کی لگام پکڑے ہوئے تھے، ان حالات میں نبی کریم ﷺ فرمارہے تھے: میں نبی برحق ہوں اس میں جھوٹ کو کوئی دخل نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2874]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓنے مذکورہ حدیث اس مقصد کے لیے ذکر کی ہے کہ اس میں سفید خچر کا ذکر ہے صحیح مسلم میں ہے یہ خچر آپ ﷺ کو کو فروہ نفاثہ نے بطور ہدیہ دیا تھا۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث 1775)
بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے۔
جس خچر پر آپ نے حنین کے دن سواری کی تھی اس کا نام دلدل تھا اور مقوقش نے اپ کو تحفہ میں دیا تھا۔
اور جو خچر فروہ نے پیش کیا تھا اس کانام فضہ تھا۔
ہمارے رجحان کے مطابق صحیح مسلم کی روایت راجح اور صحیح ہے کہ مذکورہ خچر حضرت فروہ بن نفاثہ نے دیا تھا۔
(فتح الباري: 92/6)
واللہ أعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد و قتال کے موقع پر مناسب انداز میں اپنے آباء واجداد کی بہادری کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2874   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2930  
2930. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، ان سے کسی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا آپ لوگوں نے غزوہ حنین میں فرار اختیار کیاتھا؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ نے ہر گز پیٹھ نہیں پھیری، البتہ آپ کے اصحاب میں جو نوجوان بے سروسامان تھے، جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور نہ کوئی دوسرا ہتھیار، ان کاپالا ایسی قوم سے پڑ گیا جو بہترین تیر انداز تھے، وہ ہوازن اور بنو نضر قبائل کی جماعتیں تھیں کہ ان کا تیر کم ہی خطا جاتا تھا، چنانچہ انھوں نے خوب تیر برسائے۔ وہ نشانے سے خطا نہیں کرتے تھے۔ اس دوران میں مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس جمع ہوگئے، آپ اپنے سفیدخچر پر سوار تھے اور آپ کے چچازاد بھائی حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعامانگی، پھر فرمایا: میں نبی ہوں۔ اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں، اور میں جناب عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ پھر آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2930]
حدیث حاشیہ:
(فَأَقْبَلُوا هُنَالِكَ)
کے دو مفہوم ہیں۔
ایک یہ کہ آپ کے پاس آنے والے وہ نوجوان مسلمان تھے جنھوں نے کفار سے پیٹھ پھیر لی تھی۔
جب یہ لوگ رسول اللہ ﷺکے پاس پہنچے تو کچھ تو اپنے اپنے راستے پر چلے گئے اور کچھ وہیں آپ کے پاس رک گئے آپ نے ان کی دوبارہ صف بندی کی اور ہلابول دیا۔
(حملہ کر دیا)
۔
اور دوسرا احتمال یہ ہے۔
مسلمانوں کے شکست کھانے کے بعد کفار آپ کے سامنے آئے ہوں اور ان کی طرف سے آپ پر حملہ کرنے کا بیان ہو۔
دونوں صورتوں میں یہ بات سامنے آئی کہ ہزیمت کے بعد رسول اللہ ﷺنے اپنے ساتھیوں کی دوبارہ صف بندی کی اور اپنی سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے اپنی نصرت و فتح کی دعا مانگی اس دعا کا بیان آئندہ احادیث میں آئے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2930   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3042  
3042. حضرت براء ؓسے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ!کیا غزوہ حنین کے موقع پر تم بھاگ گئے تھے؟ حضرت براء ؓنے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن راہ فرار اختیار نہیں کی تھی بلکہ ابو سفیان بن حارث ؓنے آپ کے خچر کی لگام کو پکڑا ہوا تھا، جب مشرکین نے آپ کا گھیراؤ کرلیا تو آپ نے اتر کر یہ کہنا شروع کردیا: میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ راوی کہتے ہیں: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں دیکھا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3042]
حدیث حاشیہ:

اپنے قول یا فعل سے بہادری اور شجاعت کا اظہار کرنا دور جاہلیت کا وتیرہ تھا۔
نیز اس دور میں اپنے باپ دادا کی نسبت سے فخر کیا جاتا تھا جس سے اسلام نے منع فرمایاہے۔
البتہ میدان جنگ میں دشمن کو مرعوب کرنے اور اپنے ساتھیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے غزوہ حنین کے موقع پر خود کو اپنے دادا کی طرف منسوب کیا جو بہادری اور شجاعت میں اونچا مقام رکھتے تھے نیز حضرت سلمہ ابن اکوع ؓنے بھی ایسا کیا۔

امام بخارى ؒ کا مقصد ہے کہ ذاتی طور پر ایسا کرنا اگرچہ معیوب ہے لیکن کسی عظیم مقصد کے پیش نظر یہ انداز اختیار کرنے میں چنداں حرج نہیں اور میدان جنگ میں قومی نعرہ لگانا مذموم نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3042   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4315  
4315. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، ان کے پاس ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا: ابو عمارہ! کیا تم نے حنین کی لڑائی میں پیٹھ پھیر لی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے، البتہ قوم میں جو جلد باز تھے انہوں نے اپنی جلد بازی کا ثبوت دیا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے انہیں اپنے تیروں سے چھلنی کر دیا۔ اس دوران میں حضرت ابو سفیان بن حارث ؓ آپ ﷺ کے سفید خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ فر رہے تھے: میں نبی برحق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4315]
حدیث حاشیہ:

کسی بھی قوم کی فتح و شکست کا دارو مدار سپہ سالار پر ہوتا ہے حضرت براء بن عازب ؓ کا کہنا ہے اگر ہم بھاگ نکلے تو اس کا کیا اعتبار ہے ہمارے سالار تو اپنی جگہ پر قائم رہے وہ نہیں بھاگے۔

واضح رہے کہ عبدالمطلب کا قریش میں بہت وقار تھا اور وہ بڑے بہادر تھےاس بن پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں بھاگنے والا نہیں ہوں، میں تو بہادر شخص کا بیٹا ہوں۔
" 3۔
حضرت ابو سفیان بن حارث ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں۔
یہ مکہ فتح ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے اور غزوہ حنین میں ثابت قدم رہے جیسا کہ اس حدیث کے آخر میں ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4315   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4316  
4316. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت براء ؓ سے سنا جبکہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: (ابو عمارہ!) کیا تم لوگوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ حنین کے دن پیٹھ پھیر لی تھی؟ (بھاگ گئے تھے؟) انہوں نے کہا: جہاں تک نبی ﷺ کا تعلق ہے تو آپ نے پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ دراصل قبیلہ ہوازن کے لوگ سخت تیر انداز تھے اور آپ نے اس وقت فرمایا: میں نبی ہوں، جس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4316]
حدیث حاشیہ:

سائل نے حضرت براء بن عازب ؓ سے جمع کے صیغے سے سوال کیا۔
اس سے یہ وہم ہو سکتا تھا کہ بھاگنے والوں میں رسول اللہ ﷺ بھی شامل تھے، اس لیے حضرت براء بن عازب ؓ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نہیں بھاگے تھے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ حنین کے موقع پر جب کفار نے رسول اللہﷺ کا گھیراؤ کر لیا تو آپ خچر سے اترے اور مٹی کی مٹھی لے کر ان کی طرف پھینکی تو وہ تمام شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث 4619۔
(1777)
بہر حال رسول اللہ ﷺ کے متعلق شکست خوردہ ہونے کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4316   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4317  
4317. حضرت براء ؓ ہی سے روایت ہے کہ ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا: کیا تم لوگ غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ دراصل قبیلہ ہوازن کے لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے۔ ہم لوگ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ آخر کار ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان ؓ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ فر رہے تھے: میں نبی ہوں اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر راوی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ اپنے خچر سے اتر پڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ جب مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا خچر کفار کی طرف دوڑایا۔
حضرت عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی لگام زور سے پکڑرکھی تھی تاکہ وہ تیزی سے کفار کی صفوں میں گھسنے نہ پائے اور ابو سفیان ؓ نے اس کی رکاب تھام رکھی تھی۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4612۔
(1775)

یہ روایت صحیح بخاری کی روایت کے منافی نہیں کیونکہ ابو سفیان اور حضرت عباس ؓ نے باری باری لگام تھام رکھی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر سے اترے، دعا کی اور اللہ سے فتح و نصرت طلب کی۔
آپ کی دعا تھی۔
"اے اللہ!میں تیری مددکا طلب گار ہوں۔
" آخر کار اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح عطا فرمائی اور کفار بھاگ گئے۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4616۔
(1776)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4317