عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ”ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2135
´اچھی اور بری تقدیر (قسمت) کا بیان۔` عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ”ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2135]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی جوعمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتا ہے؟ یا وہ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے؟۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2135