Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
7. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَتَصَدَّقُ أَوْ يُعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ
باب: مرتے وقت صدقہ کرنے والے اور غلام آزاد کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2123
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ الطَّائِيِّ، قَالَ: أَوْصَى إِلَيَّ أَخِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَخِي أَوْصَى إِلَيَّ بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ فَأَيْنَ تَرَى لِي وَضْعَهُ فِي الْفُقَرَاءِ أَوِ الْمَسَاكِينِ أَوِ الْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ لَمْ أَعْدِلْ بِالْمُجَاهِدِينَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَثَلُ الَّذِي يَعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ، كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي إِذَا شَبِعَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی، میں نے ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ملاقات کی اور کہا: میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟ میں اسے کہاں خرچ کروں، فقراء میں، مسکینوں میں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں؟ انہوں نے کہا: میری بات یہ ہے کہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو مجاہدین کے برابر کسی کو نہ سمجھتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو شخص مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو آسودہ ہونے کے بعد ہدیہ کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العتق 15 (3968)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3616) (تحفة الأشراف: 10970)، و مسند احمد (5/197)، (6/447) (ضعیف) (سند میں ابو حبیبہ لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1322) ، المشكاة (1871 / التحقيق الثاني)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2123 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2123  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں ابوحبیبہ لین الحدیث ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2123   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3644  
´وصیت میں تاخیر مکروہ اور ناپسندیدہ کام ہے۔`
ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کچھ دینار اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی۔ تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اپنی موت کے وقت غلام آزاد کرتا ہے یا صدقہ و خیرات دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص پیٹ بھر کھا لینے کے بعد (بچا ہوا) کسی کو ہدیہ دیدے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3644]
اردو حاشہ:
(1) فاضل محقق کی تحقیق کے مطابق اس روایت کی سند حسن ہے‘ لیکن اس سند کو حسن کہنا محل نظر ہے کیونکہ اس کی سند میں ابوحبیبہ نامی راوی مجہول ہے‘ تاہم شواہد کی بنا پر بعض علماء نے اس روایت کو حسن قراردیا ہے۔ دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 30/86)
(2) مقصد یہ ہے کہ موت کے وقت صدقہ ثواب کے لحاظ سے صحت کے وقت کے صدقے سے کمتر ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا کوئی ثواب یا فائدہ نہیں کیونکہ ہر نیکی تو ہر وقت ہی مفید ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3644   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3968  
´صحت و تندرستی کی حالت میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت۔`
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مرتے وقت غلام آزاد کرے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی آسودہ ہو جانے کے بعد ہدیہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3968]
فوائد ومسائل:
اگرچہ موت کے قریب تہائی مال تک کا صدقہ یا وصیت کرنا جائز ہے، مگر افضل یہ ہے جیسے کہ صیح بخاری میں ہے: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺسے پوچھا: اے اللہ کےرسول صدقہ کونسا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: تواس حال میں صدقہ کرے کہ تو صحت مند ہو حریص ہو (یعنی زندگی اور مال کا) غنی رہنا چاہتا ہوں اور فقیر ہوجانے سے ڈرتا ہواور صدقہ کرنے میں سستی نہ کرے کہ جب جان حلق میں آن اٹکے تو کہنے لگے فلاں کے لئے اتنا ہے اور فلاں کےلئے اس قدر حالانکہ وہ تو(حق وارثت کی وجہ سے) فلاں کا ہوچکا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: (اہل ایمان دوسرے حاجت مندوں کو) اپنے سے ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خوداحتیاج ہوتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3968