Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
کتاب: طب (علاج و معالجہ) کے احکام و مسائل
7. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِسُمٍّ أَوْ غَيْرِهِ
باب: زہر یا کسی اور ذریعہ سے خودکشی کرنے والے پر وارد وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 2045
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: يَعْنِي السُّمَّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
خبیث دوا سے وہ دوا مراد ہے جس میں زہر ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب 11 (3870)، سنن ابن ماجہ/الطب 11 (3459) (تحفة الأشراف: 14346)، و مسند احمد (2/305، 446، 478) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: خبیث دوا میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جو نجس ناپاک اور حرام ہوں اور انسانی طبائع جس سے نفرت کرتے ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3459)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2045 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2045  
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
خبیث دوا میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جو نجس ناپاک اور حرام ہوں اور انسانی طبائع جس سے نفرت کرتے ہوں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2045   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديثسنن ابي داود 3870  
ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔
اگرچہ راجح بات یہی ہے لیکن اس مسئلہ میں علما کا اختلاف بہرحال موجود ہے۔
(مالکیہ، حنابلہ) ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ امام نخعی، امام اوزاعی، امام زہری، امام محمد، امام زفر، امام ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور امام ابن حبان رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔ [المغني 490/12] ۱؎
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیین کو اونٹوں کا دودھ اور پیشاب (بطور دواء) پینے کا حکم دیا۔ [بخاري 233] ۲؎
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے (درآں حالیکہ وہاں کی اکثر جگہ کا ان کے پیشاب و پاخانہ سے آلودہ ہونا لازمی امر ہے)۔ [ترمذي 348] ۳؎
➌ حرام اشیاء میں شفا نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ «إن الله لم يجعل شفائكم فيما حرم عليكم» بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان اشیاء میں نہیں رکھی جنہیں تم پر حرام کیا ہے۔ [بخاري قبل الحديث 5614] ۴؎
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل دواء خبيث» اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر خبیث دوا (کے استعمال) سے منع فرمایا: ہے۔ [أبوداود 3870] ۵؎
عرنیین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا اور انہیں شفا ہوئی جو کہ اس کی حلت و طہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ حرام میں شفا نہیں ہے۔
(شافعیہ، حنفیہ) پیشاب حیوان کا ہو یا انسان کا مطلق طور پر نجس و پلید ہے۔ [الدر المختار 295/1] ۶؎
(ابن حجر رحمہ اللہ) انہوں نے جمہور سے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ [فتح الباري 291/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔۔۔ ان میں سے ایک شخص کو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ «فكان لا يستتر من البول» وہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔ [بخاري 216] ۷؎
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور پیشاب سے مراد صرف انسان کا پیشاب ہے نہ کہ تمام حیوانات کا بھی جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب قبر کے متعلق کہا: تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے پیشاب کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہیں کیا۔ [بخاري قبل الحديث 217] ۸؎
(راجح) حنابلہ و مالکیہ کا موقف راجح ہے کیونکہ ہر چیز میں اصل طہارت ہے جب تک کہ شرعی دلیل کے ذریعے کسی چیز کا نجس ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ [نيل الأوطار 100/1] ۹؎
------------------
۱؎ [المغني 490/12، القوانين الفقهية ص/33، كشاف القناع 220/1، الشرح الصغير 1 /47]
۲؎ [بخاري 233، كتاب الوضوء: باب أبوال الإبل والدواب والغنم، مسلم 1671، أبو داود 4364، نسائي 160/1، ترمذي 72، ابن ماجة 2578، ابن ابي شيبة 75/7، أحمد 107/3، ابن حبان 1386، دارقطني 131/1، بيهقي 4/10]
۳؎ [صحيح: ترمذي 348، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الصلاة فى مرابض الغم . . .، مسلم 817]
۴؎ [بخاري قبل الحديث 5614، كتاب الأشربة: باب شراب الحلواء والغسل]
۵؎ [صحيح: صحيح أبو داود 3278، كتاب الطب: باب الأدوية المكر وهة، أبوداود 3870، ترمذي 2045، ابن ماجة 3459، أحمد 305/2]
۶؎ [فتح القدير 146/1، الدر المختار 295/1، مراقي الفلاح ص/25، مغني المحتاج 79/1، المبسوط۔ 54/1، الهداية 36/1]
۷؎ [بخاري 216، 218 كتاب الوضوء: باب من الكبائر أن لا يستر من بوله، مسلم 292، أبو داود 20، ترمذي 70، نسائي 28/1، ابن ماجة 347، بيهقي 104/1، ابن خزيمة 56، ابن حبان 3118، ابن الجارود 130]
۸؎ [بخاري قبل الحديث 217 كتاب الوضوء: باب ما جاء فى غسل البول]
۹؎ [نيل الأوطار 100/1، الروضة الندية 73/1، فتح الباري 384/1]
* * * * * * * * * * * * * *

10۔ تمام غیر ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دینا درست نہیں
➊ کیونکہ اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔
➋ اور جو روایت اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے: «لا بأس ببول ما أكل لحمه» ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ضعیف و ناقابل حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں سوار بن مصعب راوی ضعیف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ [ضعيف: دارقطني 128/1] ۱؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ خبر باطل موضوع ہے۔ [المحلي بالآثار 180/1]
لہٰذا راجح بات یہی ہے یقینی طور پر صرف انسان کے بول و براز کی نجاست پر ہی اکتفاکیا جائے علاوہ ازیں بقیہ حیوانات میں سے جس کے بول و براز کے متعلق طہارت یا نجاست کا حکم صریح نص سے ثابت ہو جائے اسے اسی حکم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور اگر ایسی کوئی دلیل نہ ملے تو اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی زیادہ درست اور قرین قیاس ہے۔ [نيل الأوطار 101/1] ۲؎
------------------
۱؎ [ضعيف: دارقطني 128/1، ميزان الاعتدال 246/2]
۲؎ [نيل الأوطار 101/1، السيل الجرار 311/1، الروضة الندية 74/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 144   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3870  
´ناجائز اور مکروہ دواؤں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجس یا حرام دوا سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3870]
فوائد ومسائل:
خبیث سے مراد حرام اشیاء ہیں، ان سے علاج کرنا حرام ہے۔
خیال رہے کہ مرض استسقا میں اُنٹوں کا پیشاب بطور دوا خود رسول اللہ ﷺ نے تجویز فرمایا تھا، اس لیئے اس کو خبیث ادویات میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3870