سنن ترمذي
كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
48. باب مَا جَاءَ فِي اللَّعْنَةِ
باب: لعنت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1977
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیاء اور بدزبان نہیں ہوتا ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث عبداللہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9434) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں مومن کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ مومن کامل نہ تو کسی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے، نہ ہی کسی کی لعنت و ملامت کرتا ہے، اور نہ ہی کسی کو گالی گلوج دیتا ہے، اسی طرح چرب زبانی، زبان درازی اور بےحیائی جیسی مذموم صفات سے بھی وہ خالی ہوتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (320)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1977 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1977
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں مومن کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ مومن کامل نہ تو کسی کو حقیروذلیل سمجھتا ہے،
نہ ہی کسی کی لعنت وملامت کرتا ہے،
اور نہ ہی کسی کو گالی گلوج دیتاہے،
اسی طرح چرب زبانی،
زبان درازی اور بے حیائی جیسی مذموم صفات سے بھی وہ خالی ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1977
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1299
فحش گوئی، بدکلامی اور لعن طعن کرنا مومن کی شان نہیں
«وله من حديث ابن مسعود رضى الله عنه رفعه: ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذيء . وحسنه وصححه الحاكم ورجح الدارقطني وقفه.»
”ترمذی نے ہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے انہوں نے یہ روایت اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی کہ مومن بہت طعنے دینے والا، بہت لعنت کرنے والا، فحش گوئی کرنے والا، بے ہودہ بکنے والا نہیں ہوتا۔“ اور اسے حسن کہا ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور دارقطنی نے اس کے موقوف (صحابی کا قول) ہونے کو راجح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1299]
تخریج:
«صحيح»
[ترمذي نے 1977]،
[حاكم 1/12]،
[ بيهقي 10/193]
شیخ البانی نے الصحیحہ [320] میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
یہ مقام قابل مطالعہ ہے کہ کس طرح جرح غیر مفسر رد کی جاتی ہے اور ایسی جرح کا حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور دیکھئے تحفتہ الاشراف [7/104 ]
فوائد:
➊ مومن پر لعن طعن حرام ہے:
«طعان» اور «لعان» مبالغے کے صیغے ہیں۔ بہت زیادہ طعنے دینے والا، بہت زیادہ لعنت کرنے والا۔
”مومن بہت ذیادہ طعنہ دینے والا، بہت زیادہ لعنت کرنے والا نہیں ہوتا“ کا مطلب یہ نہیں کہ مومن تھوڑا بہت یہ کام کرتا رہتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان پر لعنت کرنا اور اسے طعنہ دینا بالکل ہی حرام ہے۔
«وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ» [49-الحجرات:11]
”ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ۔“
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔ حدیث لمبی ہے۔۔ اس کا ایک فقرہ یہ ہے:
«ومن لعن مومنا فهو كقتله» [صحيح بخاري 6048]
”جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کے قتل کی طرح ہے۔“
مومن کو تو جانور پر لعنت کرنا بھی جائز نہیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے میں ایک عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت کی۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا۔۔ فرمایا: اس اونٹنی سے اس کا سامان اور پالان سب اتار دو یہ ملعون ہو چکی چنانچہ اس کا سامان اتار دیا گیا اور وہ اونٹنی چھوڑ دی گئی۔ [صحيح ابي داود: الجهاد/55] آپ کی اتنی پر حکمت اور زبردست سرزنش کے بعد جانوروں پر لعنت کی جراءت کسے ہو گی؟
➋ مبالغہ کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا؟
”مومن لعان طعان نہیں ہوتا“
دراصل کفار پر تعریض اور چوٹ ہے کہ مومن نہیں بلکہ کافر لعان طعان ہوتے ہیں جس طرح کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر چوٹ کرتے ہوئے کہے کہ میرا باپ نامی گرامی چور نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ معمولی چور تھا بلکہ وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ تمہارا باپ ایسا تھا۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے کفار کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ صفات مبالغہ کے صیغے کے ساتھ ہی استعمال فرمائی ہیں:
«وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ» [104-الهمزة:1]
”ویل ہے ہر بہت زیادہ طعنہ دینے والے بہت زیادہ عیب لگانے والے کے لیے۔“ (سورت کے آخر تک)
سورہ القلم میں کفار کی بد خصلتوں میں سے یہ بھی شمار فرمائی:
«هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ» [68-القلم:11]
”بہت طعنے دینے والا۔ بہت زیادہ چغل خور۔“
➌ وہ لوگ جن پر لعنت جائز ہے:
جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ان پر لعنت جائز ہے۔ مثلاً:
«فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ» [2-البقرة:89]
”پس اللہ کی لعنت ہے کافروں پر۔“
اور فرمایا:
«أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ» [11-هود:18]
”خبردار رہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لعن الله الخمر وشاربها وساقيها» [صحيح ابوداود، الاشربة 2 ]
”اللہ تعالیٰ نے لعنت کی شراب پر اور اس کے پینے والے اور پلانے والے پر۔“
اور فرمایا:
«لعن الله السارق يسرق البيضة فتقطع يده ويسرق الحبل فتقطع يده» [صحيح بخاري، حدود 13]
”اللہ تعالیٰ لعنت کرے چور پر انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ (جب انڈے یا رسیاں دینار کے چوتھے حصے کی قیمت کو پہنچ جائیں۔)“
➍ کسی متعین شخص پر لعنت جائز نہیں:
اس موقع پر ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ کفر پر فوت ہونے والے کافر تو بلاشبہ اللہ، اس کے رسولوں، فرشتوں وغیرہم کی زبان پر ملعون ہیں، مگر کسی زندہ شخص کے معاملے میں اگر لعنت کا لفظ آئے تو صرف اس فعل پر ہو گا مثلاً چور پر اللہ کی لعنت ہو، شرابی پر اللہ کی لعنت ہو، ظالم پر اللہ کی لعنت ہو، کفار پر اللہ کی لعنت ہو، مگر کسی شخص کو متعین کر کے کہنا کہ فلاں پر اللہ کی لعنت ہو یہ جائز نہیں کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو لعنت والا کام کرنے کے باوجود وہ ملت سے خارج نہیں۔ اور مسلم بھائی کے لئے بددعا کی بجائے دعا کرنی چاہئے جبکہ لعنت بددعا ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداللہ نامی ایک آدمی تھا جسے لوگوں نے حمار (گدھا) کا لقب دے رکھا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شراب کی وجہ سے کوڑے مارے تھے ایک دن اسے لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسے کوڑے مارنے کا) حکم دیا اور اسے کوڑے مارے گئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ اس پر لعنت کر اسے کس قدر زیادہ مرتبہ (شراب پینے کی وجہ سے) لایا جاتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لعنت مت کرو کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ [بخاري: الحدود/ باب: 5 ]
دیکھیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی پر لعنت کرنے کے باوجود عبداللہ حمار رضی اللہ عنہ پر لعنت کرنے سے منع فرما دیا۔ کیونکہ وہ مسلمان تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا تھا۔
اگر لعنت کا کام کرنے والا شخص کافر ہے تب بھی اسے متعین کر کے اس کا نام لے کر اس پر لعنت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا فرما دے اور ایسی توبہ کی توفیق دے دے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب آپ فجر کی آخری رکعت کے رکوع سے اٹھتے تو یہ کہہ رہے تھے:
«اللهم العن فلانا وفلانا وفلانا»
”اے اللہ فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔“
تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی:
«لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [3-آل عمران:128]
”نہیں ہیں آپ کے اختیار میں اس معاملے سے کچھ، یا انہیں توبہ کی توفیق دے دے یا انہیں عذاب کرے پس بے شک وہ ظالم ہیں۔“ دیکھئے: [ بخاري حديث 4069-4070]
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے حق میں بد دعا کیا کرتے تھے تو یہ آیت اتری:
«لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» [3-آل عمران:128]
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ستانے میں بہت بڑھ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام لے کر لعنت اور بد دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور اپنے اختیار سے انہیں مسلمان ہونے کی توفیق بخش دی یہ تینوں مسلمان ہو گئے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 206
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1299
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
انہیں ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ ایک مومن بہت طعن کرنے والا بہت لعنت کرنے والا فحش گوئی کرنے والا اور بےحیاء نہیں ہوتا۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1299»
تخریج: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في اللعنة، حديث:1977، والحاكم:1 /12 وصححه.»
تشریح:
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ مومن کامل کے لیے لائق نہیں کہ وہ بد خو‘ فحش گو اور لعن اور طعن کرنے والا ہو‘ البتہ اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جنھیں خود اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے‘ ان پر لعن طعن کیا جا سکتا ہے‘ مثلاً: کافر‘ شراب پینے والا اور حلالہ کرنے والا وغیرہ۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ» بڑے جلیل القدر اور بہت بڑے عابد و زاہد صحابی تھے۔
ان کا نام عویمر بن زید یا ابن عامر یا ابن مالک بن عبداللہ بن قیس تھا۔
انصار سے تعلق رکھتے تھے۔
خزرج قبیلے سے تھے‘ اس لیے انصاری اور خزرجی کہلائے۔
بدر کے روز اسلام قبول کیا اور احد میں شریک ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بدری اصحاب میں شامل فرمایا تھا۔
انھوں نے جمع قرآن کی خدمت انجام دی۔
دمشق کے والی رہے۔
ان کے فضائل بے شمار ہیں۔
ان کے اقوال زریں میں سے ایک قول یہ ہے کہ بعض اوقات ایک لمحے کی شہرت‘ طویل حزن و ملال سے دوچار کر دیتی ہے۔
۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1299