Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
38. بَابُ فَضْلِ مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا أَوْ خَلَفَهُ بِخَيْرٍ:
باب: جو شخص غازی کا سامان تیار کر دے یا اس کے پیچھے اس کے گھر والوں کی خبرگیری کرے، اس کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2844
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ بَيْتًا بِالْمَدِينَةِ غَيْرَ بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: إِنِّي أَرْحَمُهَا قُتِلَ أَخُوهَا مَعِي".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں اپنی بیویوں کے سوا اور کسی کے گھر نہیں جایا کرتے تھے مگر ام سلیم کے پاس جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس پر رحم آتا ہے، اس کا بھائی (حرام بن ملحان) میرے کام میں شہید کر دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2844 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2844  
حدیث حاشیہ:
وہ ستر قاری مبلغین صحابہ ؓ قبائل رعل و ذکوان وغیرہ نے جن کو دھوکا سے شہید کردیا تھا‘ ان میں اولین شہید یہی حضرت حرام بن ملحان ؓ تھے۔
علماء نے ام سلیم کو آپ کی رضاعی خالہ بھی بتلایا ہے۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں علی أنھا کانت محرما له صلی اللہ علیه وسلم واختلفوا في کیفیة ذلك فقال ابن عبدالبر وغیرہ کانت إحدی خالاته ﷺ من الرضاعة وقال آخرون بل کانت خالة لأبیه أو لجدہ لأن عبدالمطلب کانت أمه من بني النجار (نووی)
یعنی ام سلیم آپ ﷺ کے لیے محرم تھی بعض لوگوں نے ان کو آپ کی خالہ بتلایا ہے اور رضاعی بھی۔
بعض کہتے ہیں کہ آپ کے والد ماجد یا آپ کے دادا کی خالہ تھیں‘ اس لئے کہ عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ بنو نجار سے تھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2844  
حدیث حاشیہ:

حضرت ام سلیم ؓکے حقیقی بھائی حضرت حرام بن ملحان ؓ بئر معونہ میں انصار کے ستر قراء کے ساتھ شہید کردیے گئے تھے جس کا حضرت ام سلیم ؓ پر دیر تک اثر رہا۔
ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے طور پر آپ ﷺ ان کے ہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے۔
ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ بھی تھیں۔

جب مرنے والے غازی کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جاسکتاہے تو زندہ غازی کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کرنا بالاولیٰ جائز ہوگا۔
امام بخاری ؒکے قائم کردہ عنوان کا یہی مقصد ہے۔
(عمدة القاري: 160/10)
چونکہ انھیں رسول اللہ ﷺ نے خود مشرکین کے مطالبے پر تبلیغ کے لیے روانہ کیاتھا،اس لیے آپ نے ان کی شہادت کو اپنے ہمراہ شہید ہونے سے تعبیر فرمایا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6319  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات اور حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا اور کسی عورت کے گھر نہیں جاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تھے،اس کے متعلق آپ سے بات کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے اس پر رحم آتا ہے،اس کا بھائی میرے ساتھ (لڑتا ہوا) شہید ہوا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6319]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قتل معی:
یعنی میری نصرت و حمایت کرتا ہوا شہید ہوا تھا،
کیونکہ ان کا بھائی حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہوا تھا،
جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہیں تھے،
آپ ان کی بہن ام حرام رضی اللہ عنہا کے ہاں بھی قیلولہ فرماتے تھے،
اس کا سبب بھی یہی تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6319