Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
35. بَابُ مَنْ حَبَسَهُ الْعُذْرُ عَنِ الْغَزْوِ:
باب: جو شخص کسی معقول عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکا۔
حدیث نمبر: 2839
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزَاةٍ، فَقَالَ:" إِنَّ أَقْوَامًا بِالْمَدِينَةِ خَلْفَنَا مَا سَلَكْنَا شِعْبًا، وَلَا وَادِيًا إِلَّا وَهُمْ مَعَنَا فِيهِ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ"، وَقَالَ: مُوسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
امام بخاری رحمہ اللہ حدیث کی دوسری سند بیان کرتے ہیں کہ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ یہ زید کے بیٹے ہیں ‘ ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ (تبوک) پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ لوگ مدینہ میں ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں لیکن ہم کسی بھی گھاٹی یا وادی میں (جہاد کے لیے) چلیں وہ ثواب میں ہمارے ساتھ ہیں کہ وہ صرف عذر کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آ سکے۔ اور موسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے ‘ ان سے موسیٰ بن انس نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ پہلی سند زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2839 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2839  
حدیث حاشیہ:
پہلی سند وہ جس میں حمید اور انس کے درمیان موسیٰ بن انس کا واسطہ نہیں ہے یہی زیادہ صحیح ہے۔
جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں میں کچھ واقعی ایسےمخلص تھے جن کے عذرات صحیح تھے‘ وہ دل سے شرکت چاہتے تھے مگر مجبوراً پیچھے رہ گئے‘ ان ہی کے بارے میں آپ ﷺنے یہ بشارت پیش فرمائی۔
ترجمہ اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2839   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2839  
حدیث حاشیہ:

غزوہ تبوک کے وقت کچھ لوگ ایک معقول عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔
رسول اللہ ﷺنےفرمایا:
ایسے معذور لوگ اجروثواب میں ہمارے ساتھ شریک ہیں کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ ہمارے ساتھ شریک ہوتے لیکن عذر کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے،اس لیے ان کی نیت کی بنا پر انھیں ثواب میں شریک کیا گیا۔

حدیث کے آخرمیں امام بخاری ؒنے ایک سند کا حوالہ دیا ہے،پھر فیصلہ کیا کہ پہلی سند جس میں موسیٰ کا واسطہ نہیں دوسری سند سے صحیح تر ہے جس میں موسیٰ کا واسطہ ہے۔

اس حدیث میں عذر عام ہے جو کبھی بیماری کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی سفر کی قدرت نہ ہونے کی شکل میں۔
اگرچہ صحیح مسلم کی روایت میں بیماری کی صراحت ہے تاہم اسے غالب صورت پر محمول کیا جائے گا۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4932(1911)
و فتح الباري: 58/6)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2839   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2508  
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2508]
فوائد ومسائل:
حسن نیت اور اخلاص کی بنا پر ایک معذور انسان بھی وہ درجات حاصل کرلیتا ہے۔
جوایک مجاہد اور عامل حاصل کرتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2508   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2764  
´جو شخص عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو اس کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے لوٹے، اور مدینہ کے نزدیک پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جس راہ پر تم چلے اور جس وادی سے بھی تم گزرے وہ تمہارے ہمراہ رہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مدینہ میں رہ کر بھی وہ ہمارے ساتھ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، مدینہ میں رہ کر بھی، عذر نے انہیں روک رکھا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2764]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدینے میں ہونے کے باوجود سفر میں مجاہدین کے ساتھ ہونے کا مطلب سفر کی مشقتوں کے ثواب میں شرکت ہے۔
یہ ثواب انھیں خلوص نیت کی وجہ سے ملا۔

(2)
کسی واقعی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہونے والا اگر خلوص دل سے شرکت کی تمنا رکھتا ہوتو وہ ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔

(3)
عذر والے صحابہ رضی اللہ عنہ کا جہاد میں شریک ہونا ذاتی طور پر نہ تھا کیونکہ ایک انسان ایک وقت میں دو مقامات پر موجود نہیں ہوسکتا۔
اگر یہ کرامت کسی کو حاصل ہوسکتی ہے تو ان مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوتی لیکن رسول اللہﷺ نے وضاحت فرمادی کہ وہ حضرات عملی طور پر مدینے ہی میں تھے جہاد میں اور جہاد کے سفر میں ذاتی طور پر حاضر نہیں تھے ورنہ عذر کے رکاوٹ بننے کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔
اگلی حدیث میں وضاحت ہے کہ یہ شرکت ثواب میں تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2764   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4423  
4423. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے۔ جب آپ مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’‘مدینہ طیبہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس راستے پر چلے یا جس وادی کو تم نے عبور کیا وہ تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ مدینہ طیبہ میں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں وہ مدینہ طیبہ میں تھے لیکن عذر نے ان کو روک رکھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4423]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ مرویات میں کسی نہ کسی طرح سے سفر تبوک کا ذکر آیا ہے۔
باب اور احادیث میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4423   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4423  
4423. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے۔ جب آپ مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’‘مدینہ طیبہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس راستے پر چلے یا جس وادی کو تم نے عبور کیا وہ تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ مدینہ طیبہ میں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں وہ مدینہ طیبہ میں تھے لیکن عذر نے ان کو روک رکھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4423]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ معذورتھے، کسی مجبوری کی بنا پر سفر پر قادر نہیں تھے لیکن ان کی نیت درست تھی، اس لیے وہ ثواب میں صحابہ کرام ؓ کے ساتھ شریک تھ۔
اس سے معلوم ہوا کہ معذور جب کسی عذر کی وجہ سے کوئی کام چھوڑدے تو اسے کام کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
اس حدیث میں بھی غزوہ تبوک کا حوالہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4423