صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
19. بَابُ مَنْ بَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ فِي الْغُسْلِ:
باب: اس شخص کے متعلق جس نے اپنے سر کے داہنے حصے سے غسل کیا۔
حدیث نمبر: 277
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنَّا إِذَا أَصَابَتْ إِحْدَانَا جَنَابَةٌ أَخَذَتْ بِيَدَيْهَا ثَلَاثًا فَوْقَ رَأْسِهَا، ثُمَّ تَأْخُذُ بِيَدِهَا عَلَى شِقِّهَا الْأَيْمَنِ وَبِيَدِهَا الْأُخْرَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے حسن بن مسلم سے روایت کی، وہ صفیہ بنت شیبہ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم ازواج (مطہرات) میں سے کسی کو اگر جنابت لاحق ہوتی تو وہ ہاتھوں میں پانی لے کر سر پر تین مرتبہ ڈالتیں۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر سر کے داہنے حصے کا غسل کرتیں اور دوسرے ہاتھ سے بائیں حصے کا غسل کرتیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 277 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 277
� تشریح:
پہلا چلو دائیں جانب پر دوسرا چلو بائیں جانب پر تیسرا چلو سر کے بیچ جیسا کہ باب «من بدءبالحلاب اوالطيب» میں بیان ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں اسی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ بعضوں کے نزدیک ترجمہ باب «جمله ثم تاخذ بيدها على شقها الايمن» سے نکلتا ہے کہ اس میں ضمیر سر کی طرف پھرتی ہے۔ یعنی پھر سر کے دائیں طرف پر ہاتھ سے پانی ڈالتے اور سر کے بائیں طرف پر دوسرے ہاتھ سے۔ کرمانی نے کہا کہ باب کا ترجمہ اس سے نکل آیاکیونکہ بدن میں سر سے لے کر قدم تک داخل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 277
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:277
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کسی مرفوع حدیث کا حوالہ نہیں دیا بلکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول کا حوالہ دیا ہے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک قول صحابی مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔
اس سے امام بخاری ؒ کے مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابی کا یوں کہنا (كُنَّا نَفعَلُ)
مرفوع حدیث کا درجہ رکھتاہے، خواہ وہ صحابی اس فعل کو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی طرف منسوب کرے یا نہ کرے۔
امام حاکم ؒ کا بھی یہ موقف ہے، جبکہ دوسرے محدثین قول صحابی کو اس وقت حدیث مرفوع کا درجہ دیتے ہیں جب وہ اسے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی طرف منسوب کرے۔
(فتح الباري: 499/1)
2۔
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غسل میں بھی وضو کی طرح مسنون طریقہ دائیں جانب سے شروع کرنا ہے، لیکن اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عنوان میں تو سر کی دائیں جانب کا ذکر ہے، جبکہ حدیث مذکور میں جسم کے دائیں حصے کو پہلے دھونے کا بیان ہے۔
اس کے جواب میں علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ جسم کے دائیں حصے سے مراد سر کے سمیت جسم کا دایاں حصہ مرادہے، اس طرح حدیث کے عنوان سے مطابقت ہوجاتی ہے، کیونکہ سربھی جسم میں شامل ہے۔
(شرح الکرماني: 140/2)
حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث میں تین بار سر دھونے کے ذکر سے یہ تقسیم سمجھی ہے کہ پہلے سر ہی کے دائیں حصے کو تین بار بائیں حصے کو تین بار دھویا جائے، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں وضاحت آچکی ہے کہ آپ نے سر کی دائیں جانب پھر بائیں جانب سے غسل کا آغاز فرمایا۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 258، وفتح الباري: 500/1)
لیکن اس حدیث (رقم 258)
میں یہ بات طے شدہ نہیں کہ اس سے مراد سردھونا ہے یا خوشبو استعمال کرنا ہے۔
سردھونے کی صورت میں ممکن ہے کہ اس کی دائیں جانب سے شروع کرکے جسم کے دائیں حصے کو بھی ساتھ ہی دھویا، پھر سر کے بائیں حصے سے شروع کرکے جسم کے بائیں حصے کو بھی ساتھ شامل کرلیا ہو لیکن راوی نے اختصار کے پیش نظر جسم کا ذکر نہیں کیا بلکہ (فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ)
کے الفاظ روایت کردیے ہیں۔
3۔
اس حدیث میں مطلق طور پر دائیں جانب اور بائیں جانب کا ذکر ہے۔
اس میں سر کی قید نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں سر کی قید لگا کر وضاحت کردی کہ حدیث میں شق أیمن اور شق أیسر سے مراد سر کی دو جانب ہیں، کیونکہ سر کے دھونے کا یہی طریقہ ہے کہ چلو میں پانی لیا جائے، اسے سر کی دائیں جانب ڈالا جائے، اسی طرح پھر بائیں جانب کو دھویا جائے۔
پورے جسم کو دھونے کے لیے پانی کو بہایا جاتا ہے یا پھر دونوں ہاتھوں کو بیک وقت استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ایک ایک چلو پانی لے کر جسم پر ڈالنا عادت کے خلاف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 277