Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب اللباس
کتاب: لباس کے احکام و مسائل
35. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَنْتَعِلَ الرَّجُلُ وَهُوَ قَائِمٌ
باب: کھڑے ہو کر جوتے پہننے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1775
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْتَعِلَ الرَّجُلُ وَهُوَ قَائِمٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ لَا يَصِحُّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَالْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِالْحَافِظِ، وَلَا نَعْرِفُ لِحَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَصْلًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑے ہو کر جوتا پہنے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- عبیداللہ بن عمر ورقی نے اس حدیث کو معمر سے، معمر نے قتادہ سے، قتادہ نے انس سے روایت کی ہے، یہ دونوں حدیثیں محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہیں، حارث بن نبہان کا حافظہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے،
۳- قتادہ کی انس سے مروی حدیث کی ہم کوئی اصل نہیں جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر: سنن ابن ماجہ/اللباس 29 (3618)، (تحفة الأشراف: 1463) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا راوی حارث بن نبہان متروک الحدیث ہے، دیکھئے: سلسلہ الصحیحہ رقم 719)»

وضاحت: ۱؎: کھڑے ہو کر جوتا پہننے میں یہ دقت ہے کہ پہننے والا بسا اوقات گر سکتا ہے، جب کہ بیٹھ کر پہننے میں زیادہ سہولت ہے، اگر کھڑے ہو کر پہننے میں ایسی کوئی پریشانی نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3618)

قال الشيخ زبير على زئي: (1775) ضعيف جدًا
الحارث بن نبھان: متروك (تق: 1051) وللحديث شواھد ضعيفة عند ابن ماجه (3618،3619) وغيره

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1775 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1775  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کھڑے ہو کر جوتا پہننے میں یہ دقت ہے کہ پہننے والا بسا اوقات گر سکتا ہے،
جب کہ بیٹھ کر پہننے میں زیادہ سہولت ہے،
اگر کھڑے ہو کر پہننے میں ایسی کوئی پریشانی نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نوٹ:
(متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کا راوی حارث بن نبہان متروک الحدیث ہے،
دیکھئے:
سلسلہ الصحیحہ رقم: 719)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1775   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابن ماجہ3618  
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔ [ابن ماجه3618]
محدثین کرام اور ضعیف جمع ضعیف کی مروّجہ حسن لغیرہ کا مسئلہ؟
جلیل القدر محدثین کرام نے ایسی کئی احادیث کو ضعیف وغیر ثابت قرار دیا، جن کی بہت سی سندیں ہیں اور ضعیف جمع ضعیف کے اُصول سے بعض علماء انھیں حسن لغیرہ بھی قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض ان میں سے ایسی روایات بھی ہیں جو ہماری تحقیق میں حسن لذاتہ ہیں۔
اس مضمون میں ایسی دس روایات پیش خدمت ہیں جن پر اکابر علمائے محدثین نے جرح کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے:
— نمبر 7 —
ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر جوتے پہننے سے منع فرمایا ہے اور اس روایت کی چند سندیں درج ذیل ہیں:
1: أزھر بن مروان البصري عن الحار ث بن نبھان عن معمر عن عمار بن أبي عمار عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ترمذی:1775)
2: قتادہ عن أنس رضي اللہ عنہ (ترمذی:1776)
3: أبو الزبیر عن جابر رضي اللہ عنہ (ابو داود:4135)
4: أبو معاویۃ عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:3618)
5: وکیع عن سفیان الثوری عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:3619)
شیخ البانی نے تو اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایتوں میں سے ہر ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
ولایصح ھذا الحدیث
اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ الخ
(سنن ترمذی:1776)
امام ترمذی نے فرمایا:
یہ دونوں حدیثیں اہلِ حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہیں۔
(الترمذی: 1775)
ثابت ہوا کہ امام بخاری اور امام ترمذی دونوں کے نزدیک ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت حجت نہیں، بلکہ ضعیف ہوتی ہے۔
امام ترمذی کے مزید حوالے کے لئے دیکھئے سنن ترمذی (86) اور میرا مضمون: ابن حزم اور ضعیف جمع ضعیف کی مروّجہ حسن لغیر ہ کا مسئلہ (فقرہ: 5)
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 72