Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
29. بَابُ مَنِ اخْتَارَ الْغَزْوَ عَلَى الصَّوْمِ:
باب: جہاد کو (نفلی روزوں پر) مقدم رکھنا۔
حدیث نمبر: 2828
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ أَبُو طَلْحَةَ لَا يَصُومُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ الْغَزْوِ، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَرَهُ مُفْطِرًا إِلَّا يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ثابت بنانی نے ‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ زید بن سہیل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جہاد میں شرکت کے خیال سے (نفلی روزے نہیں رکھتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر میں نے انہیں عیدالفطر اور عید الاضحی کے سوا روزے کے بغیر نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2828 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2828  
حدیث حاشیہ:
جہاد ایک ایسا عمل ہے جس میں فرض نماز بھی کم ہو جاتی ہے پھر نفلی نماز اور روزوں کا ذکر ہی کیا ہے کیونکہ جہاد ان سب پر مقدم ہے مگر عام طور پر مسلمان اس فریضہ سے غافل ہوگئے اور نفلی بلکہ خود ساختہ نمازوں‘ وظیفوں نے ان کو میدان جہاد سے قطعاً غافل کر دیا إلا ماشاء اللہ۔
پیچھے بتلایا جا چکا ہے کہ اسلام میں جہاد یعنی قتال محض مدافعانہ طور پر ہے جارحانہ ہرگز اسلام نے جنگ کو جائز نہیں رکھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2828   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2828  
حدیث حاشیہ:

جہاد ایک ایسا عمل ہے جس میں فرض نماز بھی کم ہو جاتی ہے پھر نفلی روزوں کا ذکر ہی کیا ہے۔
حضرت ابو طلحہ ؓ نفلی روزوں پر جہاد کو ترجیح دیتے تھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ دشمن کے مقابلے میں کمزور پڑ جائیں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو طلحہ ؓنے نفلی روزے رکھنے شروع کردیے۔
ان کا خیال تھا کہ اب کفر پر اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے اور جہاد میں آسانی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اپ جہاد میں حصہ لیتے تھے۔

حضرت ابو طلحہ ؓنے عمر کے آخری حصے میں بھی جہاد کیا تیاری کے ساتھ غزوہ البحر میں شرکت کی جس میں ان کی وفات ہوئی۔
سات دن کے بعد انھیں دفن کیا گیا تو ان کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
(فتح الباري: 52/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2828