سنن ترمذي
كتاب اللباس
کتاب: لباس کے احکام و مسائل
20. باب مَا جَاءَ فِي الْخِضَابِ
باب: خضاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1753
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ الشَّيْبُ: الْحِنَّاءُ، وَالْكَتَمُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْأَسْوَدِ الدِّيلِيُّ اسْمُهُ: ظَالِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ.
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سب سے بہتر چیز جس سے بال کی سفیدی بدلی جائے وہ مہندی اور وسمہ ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الترجل 18 (4205)، سنن النسائی/الزینة 16 (5080)، سنن ابن ماجہ/اللباس 32 (3622)، (تحفة الأشراف: 11927)، و مسند احمد (5/147، 150، 154، 156، 169) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ـ جو سرخ اور سیاہ مخلوط ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2622)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1753 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1753
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو سرخ اور سیاہ مخلوط ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1753
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5083
´مہندی اور کتم لگانے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم ہے۔“ جریری اور کہمس نے ان کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5083]
اردو حاشہ:
مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اجلح اپنی سند سے اسے متصل بیان کرتے ہیں، جبکہ سعید الجریری اور کہمس بن حسن نے اسے مرسل بیان کیا ہے۔ لیکن اس سے صحت حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ متصل روایت کی دیگر روایات سے تائید ہوتی ہے، بالخصوص عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی مذکورہ موصول روایت بھی اس کی مؤید ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5083
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4205
´خضاب کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے اچھی چیز جس سے اس بڑھاپے (بال کی سفیدی) کو بدلا جائے حناء (مہندی) اور کتم (وسمہ) ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4205]
فوائد ومسائل:
(کتم) ایک خاص رنگ کی پہاڑی بوٹی ہے جو بالخصوص یمن میں پا ئی جاتی ہے۔
اس کے پتے بطورِ خصاب استعمال کئے جاتے ہیں اور اس کا رنگ سیاہی مائل ہو تا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہندی اور کتم یا ان کا خضاب جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4205
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3622
´مہندی کا خضاب لگانے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالوں کی سفیدی بدلنے کے لیے سب سے بہترین چیز مہندی اور کتم ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3622]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
(وسمه كتم)
ایک خود رو پودا ہے۔
اس کے پتے پیس کر خضاب کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ (مصباح اللغات)
(2)
وسمہ لگانے سے بال سیاہ ہو جاتے ہیں جبکہ مہندی ملا کر لگانے سے بالوں کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہو جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3622
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن نسائی749
سہل بن ابو حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی سترہ کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھے، تو اس سے قریب رہے کہ شیطان اس کی نماز باطل نہ کر سکے... [سنن نسائي 749]
تفقہ:
1- نمازی کے آگے سترہ رکھنا واجب ہے یا سنت؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے اور راجح یہی ہے کہ سترہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ دیکھئے [التمهيد 4/ 193]
مسند البزار میں حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے بغیر سترے کے نماز پڑھی ہے۔ [شرح صحيح بخاري لابن بطال ج2ص 175]
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور شواہد کے ساتھ یہ صحیح ہے۔
معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سترے کے ساتھ نماز پڑھنے یا سترے کے بغیر نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے وہ استحباب پر محمول ہیں۔
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سترے کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/ 278 ح 871 2 وسنده صحيح]
2- اگر کوئی شخص سترہ رکھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو سترے کے اندر سے گزرنا کبیرہ گناہ ہے۔
3- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو جب نماز میں سترہ نہ ملتا تو وہ کسی آدمی کو سترہ بنا لیتے اور فرماتے: میری طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھ جاؤ۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/ 279 ح 2878 وسنده صحيح]
4- اس پر اجماع ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔
5- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نہ کسی نمازی کے سامنے سے گزرتے اور نہ کسی نمازی کو گزرنے دیتے تھے۔ [الموطأ 1/ 155 ح 365 وسنده صحيح]
6- مسجد میں سترہ رکھنا جائز ہے۔
مشہور تابعی اور ثقہ امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو مسجدِ حرام میں دیکھا، آپ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/ 277 ح 2853 وسنده صحيح]
7- مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ اپنا کوڑا (زمین پر) ڈال کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/ 278ح 2864 وسنده حسن]
معلوم ہوا کہ سترے کی بلندی کے لئے کوئی حد ضروری نہیں ہے تاہم مرفوع احادیث کے پیشِ نظر بہتر یہی ہے کہ سواری کے کجاوے جتنا (یعنی کم از کم ایک فٹ بلند) سترہ ہو۔ واللہ اعلم
اصل مضمون کے لئے دیکھئے محدّث العَصر حَافظ زُبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ”الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم“ صفحہ نمبر 266 (حدیث نمبر 175، وتفقہ)
نیز دیکھئے ”الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم“ صفحہ نمبر 500 (حدیث نمبر 422، وتفقہ)
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 999