حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَالْمَمَاتِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1540
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، والجبن، والبخل، والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل اور کنجوسی سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1540]
1540. اردو حاشیہ: دین و دنیا کی بھلائیوں کے حصول میں محرومی تین اسباب سے ہوتی ہے کہ انسان میں ان کے کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ‘یاسستی غالب آ جاتی ہے ‘ یا جرات کا فقدان ہوتا ہے۔ «بخل» سےمراد وہ کیفیت ہے کہ جہاں خرچ کرنا مشروع و مستحب ہو ‘ لیکن انسان وہاں خرچ نہ کرے۔ «ھرم» بڑی عمر ہونے کی یہ حالت کہ انسان دوسروں پر بوجھ بن جائے۔نہ عبادت کر سکے اور نہ دنیا کا کام۔”زندگی کے فتنے “یہ کہ آزمائشیں اورپریشانیاں غالب آ جائیں ‘ نیکی کا کاموں سے محروم رہے۔”موت کا فتنہ “یہ کہ انسان اعمال خیر سے محروم رہ جائے یا مرتے دم کلمہ توحید نصیب نہ ہو۔ اور ”قبر “آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے اس میں بندہ اگر پھسل یا پھنس گیا تو بہت بڑی ہلاکت ہے اور ”عذاب قبر “ سے تعوذ ‘امت کے لیے تعلیم ہے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام اس سے محفوظ ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1540
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3972
´باب:۔۔۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخیلی اور بڑھاپے سے ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3972]
فوائد ومسائل:
1) قرآن مجید میں وارد اور وہ لوگوں کو بخیلی کی تلقین کرتے ہیں۔
میں لفظ (بخل) با کے پیش اور خا کے سکون اور دونوں کے پیش کے ساتھ بھی پڑھا جاتاہے۔
2) (ھرم) عاجز کر دینے والا بڑھاپا کہ انسان ازحد عاجز ہوجائے۔
عقل وشعوراور صحت ساتھ چھوڑ جائے اور دوسروں کے لئے بھی بوجھ بن جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3972
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5451
´فکر و سوچ اور پریشانی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ دعائیں تھیں جنہیں آپ (پڑھنا) نہیں چھوڑتے تھے: آپ فرماتے: «اللہم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل والجبن وغلبة الرجال» ”اے اللہ! میں فکر و سوچ اور پریشانی سے، عاجزی و سستی سے، کنجوسی و بزدلی سے اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5451]
اردو حاشہ:
(1) فکر کسی آئندہ چیز کے بارے میں ہوتی ہے جب کہ غم کسی گزشتہ چیز پر۔ فکر اور غم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میں ان چیزوں کے بارے میں فکر مند ہوکر اور سوچ سوچ کر نہ گھلتا رہوں جن میں مجھے کچھ دخل نہیں‘ نہ کوئی اختیار ہے یا آئندہ کے بارے میں موہوم تصورات میں کھویا رہوں اور اپنے ضروری کام بھی نہ کر سکوں۔ اسی طرح میں بیت جانے والے واقعات کے غم میں نہ پڑا رہوں کہ میں اپنی موجودہ زندگی کو بھی حیران بنا لوں جب کہ گزشتہ واقعات نہ بدل سکتے ہیں نہ غم ان کے اثرات کو ختم کرسکتا ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا اور اسی پر بھروسہ رکھنا ہی گزشتہ اور آئندہ کے بارے میں انسان کو پر سکون بناتا ہے۔
(2) لوگوں کے غلبے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص لوگوں کے لیے اضحوکہ اور کھلونا بن جائے یا لوگوں کے ستم کے لیے تختہ مشق بن جائے کہ جو شخص چاہے‘ اسے ذلیل کرنے لگ جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5451
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5452
´فکر و سوچ اور پریشانی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ دعائیں تھیں جنہیں آپ (پڑھنا) نہیں چھوڑتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل والجبن والدين وغلبة الرجال» ”اے اللہ! میں فکر و سوچ اور پریشانی سے، عاجزی و کاہلی سے، کنجوسی و بزدلی سے، قرض سے اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے اور ابن فضیل کی حدیث میں غلطی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5452]
اردو حاشہ:
قرض سے مراد وہ قرض ہے جو ادا نہ ہو سکے بلکہ بڑھتا جائے۔ مقروض کے لیے ذلت اور بے عزتی کا سبب ہو ورنہ مطلق قرض تو رسول اللہ ﷺ نے بھی لیا ہے اور اس سے مفر بھی نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5452
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5453
´فکر و سوچ اور پریشانی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والجبن والبخل وفتنة الدجال وعذاب القبر» ”اے اللہ! میں کاہلی سے، بڑھاپے سے، بزدلی سے، کنجوسی سے، دجال کے فتنے سے، اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5453]
اردو حاشہ:
دجال کسی مخصوص شخص کا نام نہیں بلکہ یہ صفت کا صیغہ ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں: فراڈی‘ جعل ساز‘ جھوٹا اور دغا باز۔ ہر جھوٹا نبئ‘ فراڈی لیڈر اور قائد دجال ہے‘ البتہ سب سے بڑا دجال قرب قیامت پیدا ہو گا جو رب ہونے کا دعویٰ بھی کرے گا۔ اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں گے اور اس کا فتنہ فرو کریں گے‘عموماً اس کو دجال کہا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5453
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5455
´حزن و ملال (رنج و غم) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو فرماتے: «اللہم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل والجبن وضلع الدين وغلبة الرجال» ”اللہ! میں حزن و ملال، رنج و غم، عاجزی و کاہلی، کنجوسی و بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: سعید بن سلمہ ضعیف ہیں ۱؎۔ ہم نے ان کی روایت اس لیے بیان کی ہے کہ اس کی سند (ایک را [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5455]
اردو حاشہ:
فکرو غم سے پناہ مانگنے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے کوئی غم ناک چیز نہ پہنچے اور نہ نقصان دہ چیز کا خطرہ رہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5455
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5455
´حزن و ملال (رنج و غم) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو فرماتے: «اللہم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل والجبن وضلع الدين وغلبة الرجال» ”اللہ! میں حزن و ملال، رنج و غم، عاجزی و کاہلی، کنجوسی و بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: سعید بن سلمہ ضعیف ہیں ۱؎۔ ہم نے ان کی روایت اس لیے بیان کی ہے کہ اس کی سند (ایک را [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5455]
اردو حاشہ:
فکرو غم سے پناہ مانگنے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے کوئی غم ناک چیز نہ پہنچے اور نہ نقصان دہ چیز کا خطرہ رہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5455
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5460
´عاجزی اور مجبوری سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں وہی سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے تھے، آپ فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من العجز والكسل والبخل والجبن والهرم وعذاب القبر اللہم آت نفسي تقواها وزكها أنت خير من زكاها أنت وليها ومولاها اللہم إني أعوذ بك من قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع وعلم لا ينفع ودعوة لا يستجاب لها» ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، عاجزی و مجبوری اور بے بسی سے، کاہلی سے، بخیلی و کنجوسی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5460]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 5444
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5460
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5462
´ذلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الفقر وأعوذ بك من القلة والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم» ”اے اللہ! میں فقر و غربت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، کمی اور ذلت سے پناہ مانگتا ہوں، ظلم کرنے اور ظلم کیے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) اوزاعی نے حماد کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5462]
اردو حاشہ:
اوزاعی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ حماد بن سلمہ نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے:عن سعید بن یسار عن أبي هریرة جبکہ اوزاعی نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے: حدثني جعفر بن عیاض‘ قال حدثني أبي هریرة‘یعنی اوزاعی نے سعید بن یسار کی بجائے جعفر بن عیاض کہا ہے۔ واللہ أعلم
(1) سنن ابوداؤد مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام‘ حدیث:1544 کے فائدے میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں کہ فقر دو طرح سے ہوتا ہے: مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل کا غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے بر عکس انسان ”حرص“ کا مریض ہو تو یہ بہت ہی قبیح خصلت ہے‘ نیز فقیری اور غریبی کی کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کر لازمی واجبات کی ادا نہ کر سکے‘ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان (اللہ تعالی ٰ نافرمانی) کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا‘ کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
(2) فقر سے مراد وہ فقر بھی ہو سکتا ہے جس سے کفر اور گمراہی کا خطرہ ہو کیونکہ عوام الناس کے لیے فقر گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے مالی فقر ایک نعمت ہے۔ آپ کی دعائیں دراصل امت کے لیے تعلیم ہیں۔ یا فقر سے مراد جسے انسان برداشت نہ کر سکے اور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔ فقر سے فقرقلب بھی مراد ہو سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر ہوا۔
(3) قلت سے مراد افراد بھی ہو سکتی ہے اور قلت مال بھی جسے اوپر فقر کہا گیا ہے ورنہ کثرت مال تو بسا اوقات گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ذلت سے مراد لوگوں کا غلبہ ہے کہ آدمی اپنا حق بھی حاصل نہ کر سکے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث:5451۔
(4) اس حدیث میں ہر بعد والا لفظ پہلے کا نتیجہ ہے۔ فقر سے قلت پیدا ہوتی ہے‘ قلت ذلت کو جنم دیتی ہے اور ذلت انسان کو مظلوم بنا دیتی ہے۔ یا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر ظالم ڈاکو بن جاتا ہے۔ نعوذ بالله من ذلك
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5462
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5479
´مالداری کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من عذاب القبر وفتنة النار وفتنة القبر وعذاب القبر وشر فتنة المسيح الدجال وشر فتنة الغنى وشر فتنة الفقر اللہم اغسل خطاياى بماء الثلج والبرد ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس اللہم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمغرم والمأثم» ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب، جہنم کے فتنے، قبر کے فتنے، قبر کے عذاب، مسیح دجال کے فتنے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5479]
اردو حاشہ:
دیکھیے، روایت: 5467
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5479
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5505
´لوگوں کے قہر و غلبے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”میری خدمت کے لیے اپنے لڑکوں میں سے ایک لڑکا تلاش کرو“، تو ابوطلحہ مجھے اپنے پیچھے بٹھائے ہوئے لے کر نکلے۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، جب جب آپ قیام کرتے میں اکثر آپ کو کہتے ہوئے سنتا: «اللہم إني أعوذ بك من الهرم والحزن والعجز والكسل والبخل والجبن وضلع الدين وغلبة الرجال» ”اے اللہ! میں بڑھاپے سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5505]
اردو حاشہ:
یہ جنگ خیبر کا واقعہ ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کےخاوند تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ پہلے بھی آپ کی خدمت کیا کرتے تھے مگر چونکہ عمر میں چھوٹے تھے‘ اس لیے آپ نے محسوس فرمایا کہ شاید گھر والے اتنے چھوٹے بچے کوجنگی سفر میں ساتھ بھیجنے پرراضی نہ ہوں۔ آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ہی سے خادم کی خواہش فرمائی۔ انھوں نے حضرت انس کوہی ساتھ لے لیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5505
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3484
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا: «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر وغم سے،
عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر وظلم وزیادتی سے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3484
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3485
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والجبن والبخل وفتنة المسيح وعذاب القبر» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سستی و کاہلی سے، اور انتہائی بڑھاپے سے (جس میں آدمی ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے) بزدلی و بخالت سے اور مسیح (دجال) کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3485]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سستی و کاہلی سے،
اور انتہائی بڑھاپے سے (جس میں آدمی ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے) بزدلی وبخالت سے اور مسیح (دجال) کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3485
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2893
2893. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓسے فرمایا: ”اپنے بچوں میں سےکوئی بچہ میرے ساتھ کرو جو غزوہ خیبر میں میری خدمت کرے جب میں خیبر کا سفر کروں۔“ حضرت ابو طلحہ ؓمجھے اپنے پیچھے بٹھا کرلے گئے۔ میں اس وقت بلوغ کے قریب لڑکا تھا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ راستے میں کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ میں بکثرت آپ کو یہ دعا پڑھتے سنتا تھا: ”اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اورکاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔“ آخر ہم خیبر پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب خیبر کا قلعہ فتح کردیا تو آپ کے پاس حضرت صفیہ بنت حیی کی خوبصورتی کا تذکرہ ہوا جبکہ اس کا شوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے مختص فرمایا اور اسے ساتھ لے کر نکلے حتیٰ کہ جب ہم سد صبہاء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2893]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے غزوۂ خیبر میں حضرت انس ؓ کو خدمت کے لیے ساتھ رکھا جو ابھی نابالغ تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
اسی لڑائی میں حضرت صفیہ ؓ آپﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں جو ایک خاندانی خاتون تھیں اس رشتہ سے اہل سلام کو بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔
روایت ہذا میں ایک دعائے مسنونہ بھی مذکور ہوئی ہے جو بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جس کا یاد کرنا اور دعاؤں میں اسے پڑھتے رہنا بہت سے امور دینی اور دنیاوی کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
حضرت صفیہ ؓکے تفصیلی حالات پیچھے مذکور ہوچکے ہیں اسی حدیث سے مدینہ منورہ کا بھی مثل مکہ شریف حرم ثابت ہوا۔
حضرت انس ؓ پہلے ہی سے آپ کی خدمت میں تھے مگر سفر میں ان کا پہلا موقع تھا کہ خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
دعاء مسنونہ میں لفظ ھم اور حزن ہم معنی ہی ہیں۔
فرق یہ ہے کہ ھم وہ فکر جو واقع نہیں ہوا لیکن وقوع کا خطرہ ہے‘ حزن وہ غم و فکر جو واقع ہوچکا ہے۔
حضرت انس ؓ خدمت نبوی میں پہلے ہی تھے مگر اس موقع پر بھی ان کو ہمراہ لیا گیا ان کی مدت خدمت نو سال ہے‘ احد پہاڑ کے لیے جو آپﷺ نے فرمایا وہ حقیقت پر مبنی ہے ﴿اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدِیْرٌ﴾ (البقرة: 20)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2893
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4707
4707. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں بخل سے، سستی سے، نکمی عمر سے، عذاب قبر سے اور فتنہ دجال سے، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4707]
حدیث حاشیہ:
نکمی عمر 80 یا 90 سال کے بعد ہوتی ہے۔
جس میں آدمی بوڑھا ہو کر بالکل بے عقل ہو جاتا ہے، ہر آدمی کی قوت اور طاقت پر منحصر ہے۔
کوئی خاص میعاد مقرر نہیں کی جا سکتی۔
زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اللہ کی یاد بھول جائے فرائض اور احکام شریعت کو ادا نہ کرے، موت کا فتنہ سکرات کے وقت شروع ہوتا ہے۔
اس وقت شیطان آدمی کا ایمان بگاڑنا چاہتا ہے۔
دوسری حدیث میں دعا آئی ہے أعوذُ بِكَ من أن یتخبطنيَ الشیطانُ عندَ الموتِ۔
یعنی اے اللہ! تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ موت کے وقت مجھ کو شیطان گمراہ کردے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5425
5425. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ”تم اپنے یہاں کے بچوں میں سے کوئی بچہ تلاش کر لاؤ میرے کام کر دیا کرے۔“ سیدنا طلحہ ؓ مجھے لے کر نکلے اور اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا۔ میں آپ کو بکثرت یہ دعا پڑھتے سنتا: ”اۓ اللہ! میں تیرے زریعے سے غم و اندوہ عجز و سستی، بخل کے بوجھ بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے پناہ چاہتا ہوں۔“ میں ہمیشہ آپ ﷺ کی خدمت کرتا رہا حتیٰ کہ ہم خیبر سے واپس آئے۔ سیدنا صفیہ بنت جیسی بھی ساتھ تھیں جنہیں آپ نے پسند فرمایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے پیچھے کمبل یا چادر کا پردہ کیا پھر ان کو وہاں بٹھایا۔ آ کر جب ہم مقام صہباء پہنچے تو آپ نے دسترخوان پر حیس تیار کرایا، پھر مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو بلایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5425]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی دعا قبول فرمائی اور مدینہ کو مثل مکہ کے برکتوں سے مالا مال فرما دیا۔
مدینہ کی آب وہوا معتدل ہے اور وہاں کا پانی شیریں اور وہاں کی غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔
مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے جو لوگ مدینہ کی حرمت کا انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔
اس بارے میں اہلحدیث ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مدینہ بھی مثل مکہ حرم ہے۔
زادھا اللہ شرفا و تعظیما۔
حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب بن شعبہ سبط حضرت ہارون علیہ السلام سے ہیں۔
ان کی ماں کا نام برہ بنت سموال تھا۔
یہ جنگ خیبر میں سبایا میں تھیں۔
حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے درخواست کی مگر لوگوں نے کہا کہ یہ بنوقریظہ اور بنونضیر کی سیدہ ہیں۔
اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حرم میں داخل فرما لیں تو بہتر ہے۔
چنانچہ ان کو آزاد کر کے آپ نے ان سے نکاح کر لیا۔
ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔
آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ مجھ کو حقیر سمجھتی ہیں اور اپنے لیے بطور فخر کہتی ہیں کہ میرا نسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ تم مجھ سے کیوں کر بہتر ہو سکتی ہو۔
میرے باپ حضرت ہارون علیہ السلام اورمیرے چچا موسیٰ علیہ السلام اور میرے شوہر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی نے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ سے آ کر شکایت کی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سبت کی عزت کرتی ہیں اوریہود کوعطیات دیتی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ا ن سے دریافت کر بھیجا۔
انہوں نے کہا کہ جب سے اللہ نے ہم کو جمعہ عطا فرمایا ہے میں نے سبت کبھی پسند نہیں کیا۔
رہے یہود ان سے میری قرابت کے تعلقات ہیں میں ان کو ضرور دیتی رہتی ہوں۔
پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اس شکایت کی وجہ کیا ہے؟ لونڈی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان کو راہ اللہ آزاد کر دیا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال رمضان سنہ 50 ھ میں ہوا۔
ان سے دس احادیث مردی ہیں۔
ان کے ماموں رفاعہ بن سموال صحابی تھے۔
ان کی حدیث مؤطا امام مالک میں ہے۔
(رحمۃ للعالمین، جلد:
دوم،222)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2893
2893. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓسے فرمایا: ”اپنے بچوں میں سےکوئی بچہ میرے ساتھ کرو جو غزوہ خیبر میں میری خدمت کرے جب میں خیبر کا سفر کروں۔“ حضرت ابو طلحہ ؓمجھے اپنے پیچھے بٹھا کرلے گئے۔ میں اس وقت بلوغ کے قریب لڑکا تھا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ راستے میں کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ میں بکثرت آپ کو یہ دعا پڑھتے سنتا تھا: ”اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اورکاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔“ آخر ہم خیبر پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب خیبر کا قلعہ فتح کردیا تو آپ کے پاس حضرت صفیہ بنت حیی کی خوبصورتی کا تذکرہ ہوا جبکہ اس کا شوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے مختص فرمایا اور اسے ساتھ لے کر نکلے حتیٰ کہ جب ہم سد صبہاء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2893]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہادی سفر اور غزوات میں بچوں کو خدمت کے لیے ساتھ لے جانا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ کا یہی مقصد ہے،نیز بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا آغاز غزوہ خیبر سے کیا۔
اس طرح انھوں نے صرف چار برس تک آپ کی خدمت کی،حالانکہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کی نو یا دس برس خدمت کی تھی۔
دراصل آپ نے عمومی خدمت کا آغاز تو مدینہ طیبہ میں آتے ہی کردیا تھا، البتہ غزوہ خیبر کے وقت خصوصی خدمت کا اہتمام فرمایا،یعنی حضرت ابوطلحہ ؓنے اس جہادی سفر میں خدمت کے لیے آپ کاتعین فرمایاتھا، عمومی خدمات تو پہلے ہی بجالاتے تھے۔
اس حدیث میں کئی ایک واقعات ہیں جن کی موقع ومحل کے مطابق تشریح ہوگی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2893
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4707
4707. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں بخل سے، سستی سے، نکمی عمر سے، عذاب قبر سے اور فتنہ دجال سے، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4707]
حدیث حاشیہ:
نکمی عمر سے مراد زندگی کا وہ حصہ ہے جس میں انسان بوڑھا ہو کر بے عقل ہو جاتا ہے، اس کے لیے کوئی خاص میعاد مقرر نہیں بلکہ ہر آدمی کی طاقت اور قوت پر منحصر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4707
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5425
5425. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ”تم اپنے یہاں کے بچوں میں سے کوئی بچہ تلاش کر لاؤ میرے کام کر دیا کرے۔“ سیدنا طلحہ ؓ مجھے لے کر نکلے اور اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا۔ میں آپ کو بکثرت یہ دعا پڑھتے سنتا: ”اۓ اللہ! میں تیرے زریعے سے غم و اندوہ عجز و سستی، بخل کے بوجھ بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے پناہ چاہتا ہوں۔“ میں ہمیشہ آپ ﷺ کی خدمت کرتا رہا حتیٰ کہ ہم خیبر سے واپس آئے۔ سیدنا صفیہ بنت جیسی بھی ساتھ تھیں جنہیں آپ نے پسند فرمایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے پیچھے کمبل یا چادر کا پردہ کیا پھر ان کو وہاں بٹھایا۔ آ کر جب ہم مقام صہباء پہنچے تو آپ نے دسترخوان پر حیس تیار کرایا، پھر مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو بلایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5425]
حدیث حاشیہ:
(1)
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور مدینہ طیبہ کو مکے کی طرح خیر و برکات سے مالا مال کر دیا۔
مدینہ طیبہ کی آب و ہوا بڑی معتدل، وہاں کا پانی میٹھا اور غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ کھجور، گھی اور پنیر سے حیس تیار کر کے بوقت ضرورت ولیمے میں کھلایا جا سکتا ہے۔
ولیمے میں گوشت کا ہونا ضروری نہیں۔
موقع و محل کے مطابق جو کچھ میسر ہو اسے پیش کر دیا جائے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6363
6363. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت طلحہ نے فرمایا: ”اپنے لڑکوں میں کوئی لڑکا منتخب کرو جو میری خدمت کیا کرے۔“ حضرت ابو طلحہ ؓ مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا کر لے گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ جہاں کہیں پڑاؤ کرتے، میں آپ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ میں نے آپ ﷺ کو اکثر یہ دعا کرتے سنا: ”اے اللہ! میں غم والم سے تیری پناہ چاہتا ہوں، عاجزی اور سستی بخل اور بزدلی قرض کے بوجھ اور انسانوں کے غلبے سے بھی تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“ میں آپ ﷺ کی خدمت کرتا رہا کہ ہم خیبر سے واپس ہوئے تو آپ حضرت صفیہ بنت حییی ؓ کو ساتھ لے کر تشریف لائے جنہیں آپ نے ذات کریمہ کے لیے خاص کیا تھا۔ میں آپ کو دیکھتا تھا کہ آپ چادر یا کمبل سے پردہ کر کے ان کو اپنے پیچھے بٹھاتے تھے حتیٰ کہ ہم صہبا میدان میں آئے تو آپ ﷺ نے ایک چرمی دسترخوان پر کچھ حلوہ سا تیار کر کے رکھوا دیا، اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6363]
حدیث حاشیہ:
جس ناپسندیدہ شے کا اندیشہ ہو تو وہ هم اور مکروہ کام واقع ہو چکا ہو تو وہ حزن ہے۔
جابر و ظالم لوگوں کا کمزوروں پر غلبہ پا لینا غلبۃ الرجال ہے۔
یہ دعا بہت جامع ہے کیونکہ اس میں تمام رذیل اشیاء سے پناہ مانگی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام رذیل چیزوں سے محفوظ رکھے۔
آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6363
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6367
6367. حضرت انس بن مالک ؓ سےروایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کہا کرتے تھے: ”اےاللہ! میں عاجزی، سستی، بزدلی، اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اور عذاب قبر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6367]
حدیث حاشیہ:
(1)
کم ہمتی، سستی اور بزدلی ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے آدمی وہ جراءت مندانہ اقدامات اور محنت و قربانی والے اعمال نہیں کر سکتا جن کے بغیر نہ دنیا میں کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ آخرت میں فوزوفلاح اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے اور اپنے عمل سے امت کو بھی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
(2)
موت و حیات کا فتنہ بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ انسان زندگی بھر مختلف امتحانوں کا شکار ہو جائے اور دنیا کا مال و متاع اور شہوات کا فتنہ اس قدر سخت ہے کہ اس سے بہت کم لوگ ہی محفوظ رہتے ہیں۔
زندگی کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ انسان کا خاتمہ خراب ہو جائے۔
اسے موت کا فتنہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ موت کے قریب واقع ہوتا ہے اور موت کے فتنے سے مراد عذاب قبر ہے۔
(فتح الباري: 412/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6367
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6369
6369. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں غم والم، عاجزی و کاہلی، بزدلی نیز قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6369]
حدیث حاشیہ:
(1)
بزدلی اور سستی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ سستی سے بزدلی جنم لیتی ہے، جبکہ سستی کا تعلق جسم سے ہے اور بزدلی دل سے تعلق رکھتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی سے پناہ مانگتے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کو ایسی دعائیں سکھانے کا بہت اہتمام کرتے تھے جن میں بزدلی اور سستی سے پناہ کا ذکر ہوتا۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2822) (2)
بزدلی کی ضد شجاعت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2820)
بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا:
”تم مجھے کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا یا بزدل نہیں پاؤ گے۔
“ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3148)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6369
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6371
6371. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں سستی کاہلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں ناکارہ بڑھاپے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور بخل سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6371]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اگرچہ أرذل العمر کے الفاظ ہیں، لیکن الهرم سے مراد ارذل العمر ہی ہے، جس میں انسان بالکل ناکارہ ہو جاتا ہے۔
اس میں انسان کا حافظہ کمزور اور بعض دفعہ عقل بھی ماؤف ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
”تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بدترین عمر کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں۔
“ (النحل: 170)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کی بعض روایات میں الهرم کے بجائے أرذل العمر کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4707)
عمر کی اس حد تک درازی کہ ہوش و حواس قائم رہیں اور آخرت کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن ایسا بڑھاپا جو انسان کو بالکل ہی بے کار کر دے ایسی ہی چیز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے۔
حدیث میں هرم (بڑھاپے)
کا یہی درجہ مراد ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6371