سنن ترمذي
كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
23. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ تُنْزَى الْحُمُرُ عَلَى الْخَيْلِ
باب: گھوڑی پر گدھے چھوڑنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1701
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَهْضَمٍ مُوسَى بْنُ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا مَأْمُورًا، مَا اخْتَصَّنَا دُونَ النَّاسِ بِشَيْءٍ إِلَّا بِثَلَاثٍ: " أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوءَ، وَأَنْ لَا نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ، وَأَنْ لَا نُنْزِيَ حِمَارًا عَلَى فَرَسٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا، عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ، فَقَالَ: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَوَهِمَ فِيهِ الثَّوْرِيُّ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مامور بندے تھے، آپ نے ہم کو دوسروں کی بنسبت تین چیزوں کا خصوصی حکم دیا: ہم کو حکم دیا
۱؎ کہ پوری طرح وضو کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گھوڑی پر گدھا نہ چھوڑیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سفیان ثوری نے ابوجہضم سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث کی سند یوں بیان کی،
«عن عبيد الله بن عبد الله بن عباس عن ابن عباس»،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ثوری کی حدیث غیر محفوظ ہے، اس میں ثوری سے وہم ہوا ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے اسماعیل بن علیہ اور عبدالوارث بن سعید نے ابوجہضم سے، ابوجہضم عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس سے، اور عبیداللہ نے ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کی ہے،
۴- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 131 (808)، سنن النسائی/الطہارة 106 (141)، والخیل 10 (3611)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 49 (426)، (تحفة الأشراف: 5791)، و مسند احمد (1/225، 235، 249) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یہ حکم ایجابی تھا، ورنہ اتمام وضوء سب کے لیے مستحب ہے، اور گدھے کو گھوڑی پر چھوڑنا سب کے لیے مکروہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1701 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1701
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یہ حکم ایجابی تھا،
ورنہ اتمام وضوء سب کے لیے مستحب ہے،
اور گدھے کو گھوڑی پر چھوڑنا سب کے لیے مکروہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1701
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 19
´دلوں میں آنے والے خیالات پر مواخذہ نہیں`
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔““ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 22]
فوائد: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ظہر اور عصر میں قرأت کے متعلق تردد تھا لیکن ظہر اور عصر میں قرأت کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے،
جیسا کہ حضرت ابومعمر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرأت کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کرنے کو آپ لوگ کس طرح معلوم کر لیتے تھے؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔ [بخاري، كتاب الاذان، رقم: 761]
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 19
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 809
´ظہر اور عصر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے یا نہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 809]
809۔ اردو حاشیہ:
ظہر اور عصر میں قرأت کے مسئلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایات مختلف ہیں، کسی میں انکار ہے اور کسی میں تردد اور جبکہ کچھ میں اثبات بھی مروی ہے، شاید انہیں پہلے علم نہ تھا، پھر بعد میں دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے علم ہوا، بہرحال صحیح روایت میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرأت فرمایا کرتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري، حديث 746]
➋ اہل بیت کو کسی خاص حکم اور وصیت سے مخصوص نہیں کیا گیا۔ مذکورہ مسائل محض تاکید مذید کے معنی میں ہیں۔ صرف صدقہ کے نہ کھانے میں انہیں انفرادیت ہے۔
➌ گدھے اور گھوڑی کی جفتی ہمیں خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل از خود ہو جائے یا کوئی جاہل لوگ کریں تو ہمیں ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 809
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 141
´کامل وضو کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے تھے، تو انہوں نے کہا: قسم ہے اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت ہمیں (یعنی بنی ہاشم کو) کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا سوائے تین چیزوں کے ۱؎ (پہلی یہ کہ) آپ نے حکم دیا کہ ہم کامل وضو کریں، (دوسری یہ کہ) ہم صدقہ نہ کھائیں، اور (تیسری یہ کہ) ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر نہ چڑھائیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 141]
141۔ اردو حاشیہ:
➊ صدقہ و زکاۃ کی حرمت کے علاوہ باقی مذکورہ چیزیں اہل بیت سے خاص نہیں، صرف صدقہ و زکاۃ نہ کھانے میں انہیں انفرادیت ہے۔ باقی مذکورہ مسائل محض تاکید مزید کے معنی میں ہیں۔
➋ ”گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔“ کیونکہ گھوڑا نسل کے اعتبار سے اعلیٰ اور مبارک جانور ہے، اس لیے گھوڑی سے خچر حاصل کرنا اعلیٰ اور عمدہ پر ادنیٰ اور کم تر کو ترجیح دینا ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں ہے، تاہم خچر خریدنا اور اس پر سواری کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر کا تحفہ ملا تو آپ نے قبول فرمایا اور بارہا اس پر سواری بھی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل آیت: 8 میں خچروں کی سواری اور ان کے باعث زینت ہونے کی اپنی نعمت شمار کیا ہے۔ بعض علماء اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بطور سواری استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک درجہ کراہت تو ہے مگر اس کی افزائش کا مروجہ طریقہ جائز ہے اور حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں بلکہ تنزیہ کے لیے ہے، لیکن دلائل کی رو سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے کہ اس طریقے سے اس کا حصول محل نظر ہے، البتہ خچر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، نیز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ﴿إنما یفعل ذلک الذین لایعلمون﴾ [مسند احمد: 98/1، و سنن النسائي، الخیل، حدیث: 3601]
”یہ کام بے علم لوگ کرتے ہیں۔“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باشعور اور اچھے لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ گویا اس میں ایک لحاظ سے سرزنش کا پہلو ہے۔ بنابریں گدھے اور گھوڑی کی جفتی خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل ازخود ہو جائے یا کوئی جاہل لوگ کریں تو ہمارے لیے ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [معالم السنن للخطابي: 21/2، و شرح معاني الآثار للطحاوي: 273/3، و ذخیرة العقبی، شرح سنن النسائي: 245-238/3]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 141
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3611
´گھوڑیوں پر گدھے چڑھا کر خچر پیدا کرنا معیوب بات ہے۔`
عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا اس وقت ان سے کسی نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں کچھ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا ہو سکتا ہے اپنے من ہی من میں پڑھتے رہے ہوں۔ انہوں نے کہا: تم پر پتھر لگیں گے یہ تو پہلے سے بھی خراب بات تم نے کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے تھے، اللہ نے آپ کو اپنا پیغام دے کر بھیجا، آپ نے اسے پہنچا دیا۔ قسم اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3611]
اردو حاشہ:
(1) ”نہیں“ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال میں متفرد ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں مطلقاً قراء ت نہیں کرتے تھے۔ اونچی نہ آہستہ۔ دیگر صحابہ سے صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر وعصر میں بھی آہستہ قراء ت فرماتے تھے‘ لہٰذا اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا لا علمی پر محمول کیا جائے گا۔ غلطی سے اللہ تعالیٰ ہی پاک ہے۔
(2) ”زخمی ہو“ ناراضی سے فرمایا‘ حالانکہ اس شخص کی بات بجا تھی۔ آپ کے اونچا نہ پڑھنے سے یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہےکہ آپ بلکل نہیں پڑھتے تھے؟ باقی ساری نماز بھی تو آہستہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ تو کیا ساری نماز میں خاموش رہتے تھے؟ اس بات کے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی قائل نہیں تھے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی ہے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
(3) ”تین چیزیں“ مگر یہ تین چیزیں بھی اہل بیت سے خاص نہیں۔ وضـو اچھی طرح کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ صدقہ بھی ہر مال دار پر حرام ہے تیسرا کام بھی ہرامتی کے لیے منع ہے‘ البتہ ”معززین“ کے لیے زیادہ سختی ہے۔ وہ اہل بیت ہوں یا اہل علم۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3611
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث426
´اچھی طرح وضو کرنے کا بیان۔`
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کامل وضو کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 426]
اردو حاشہ:
اسباغ کی وضاحت کے لیےحدیث 407 کا فائدہ نمبر 1 ملاحظہ فرمائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 426