سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
32. باب مَا يَحِلُّ مِنْ أَمْوَالِ أَهْلِ الذِّمَّةِ
باب: ذمی کے مال سے کتنا لینا جائز ہے؟
حدیث نمبر: 1589
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَمُرُّ بِقَوْمٍ فَلَا هُمْ يُضَيِّفُونَا، وَلَا هُمْ يُؤَدُّونَ مَا لَنَا عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَقِّ، وَلَا نَحْنُ نَأْخُذُ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ أَبَوْا إِلَّا أَنْ تَأْخُذُوا كَرْهًا، فَخُذُوا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَيْضًا، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّهُمْ كَانُوا يَخْرُجُونَ فِي الْغَزْوِ، فَيَمُرُّونَ بِقَوْمٍ وَلَا يَجِدُونَ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَشْتَرُونَ بِالثَّمَنِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ أَبَوْا أَنْ يَبِيعُوا إِلَّا أَنْ تَأْخُذُوا كَرْهًا، فَخُذُوا "، هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِنَحْوِ هَذَا.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں جو نہ ہماری مہمانی کرتے ہیں، نہ ان پر جو ہمارا حق ہے اسے ادا کرتے ہیں، اور ہم ان سے کچھ نہیں لیتے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر وہ نہ دیں سوائے اس کے کہ تم زبردستی ان سے لو، تو زبردستی لے لو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اسے لیث بن سعد نے بھی یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے
(جیسا کہ بخاری کی سند میں ہے)،
۳- اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ جہاد کے لیے نکلتے تھے تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے، جہاں کھانا نہیں پاتے تھے، کہ قیمت سے خریدیں، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر وہ
(کھانا) فروخت کرنے سے انکار کریں سوائے اس کے کہ تم زبردستی لو تو زبردستی لے لو،
۴- ایک حدیث میں اسی طرح کی وضاحت آئی ہے، عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے، وہ بھی اسی طرح کا حکم دیا کرتے تھے
۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 18 (2461)، والأدب 85 (6137)، صحیح مسلم/اللقطة 3 (1727)، سنن ابی داود/ الأطعمة 5 (3752)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3626)، (تحفة الأشراف: 9954)، و مسند احمد (4/149) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام احمد، شوکانی اور صاحب تحفہ الاحوذی کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس کی کوئی تاویل بلا دلیل ہے، جیسے: یہ زمن نبوت کے ساتھ خاص تھا، یا یہ کہ یہ ان اہل ذمہ کے ساتھ خاص تھا جن سے مسلمان لشکریوں کی ضیافت کرنے کی شرط لی گئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3676)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1589 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1589
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
امام احمد،
شوکانی اور صاحب تحفہ الاحوذی کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے،
اس کی کوئی تاویل بلا دلیل ہے،
جیسے:
یہ زمن نبوت کے ساتھ خاص تھا،
یا یہ کہ یہ ان اہل ذمہ کے ساتھ خاص تھا جن سے مسلمان لشکریوں کی ضیافت کرنے کی شرط لی گئی تھی،
وغیرہ وغیرہ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1589