سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
26. باب مَا جَاءَ فِي أَمَانِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ
باب: غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَجَازُوا أَمَانَ الْمَرْأَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق: أَجَازَ أَمَانَ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا: مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ أَيْضًا وَاسْمُهُ يَزِيدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَنَّهُ أَجَازَ أَمَانَ الْعَبْدِ، رُوِيَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ مَنْ أَعْطَى الْأَمَانَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَهُوَ جَائِزٌ عَلَى كُلِّهِمْ.
ام ہانی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے دو رشتے داروں کو پناہ دی، تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (یہ حدیث) کئی سندوں سے مروی ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے عورت کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، انہوں نے عورت اور غلام کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے،
۴- راوی ابو مرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب کو مولیٰ ام ہانی بھی کہا گیا ہے، ان کا نام یزید ہے،
۵- عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے، انہوں نے غلام کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے،
۶- علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن عمرو کے واسطے سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے فرمایا:
”تمام مسلمانوں کی پناہ یکساں ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کر سکتا ہے
“ ۲؎،
۷- اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے، اگر مسلمانوں میں سے کسی نے امان دے دی تو درست ہے اور ہر مسلمان اس کا پابند ہو گا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 4 (357)، والجزیة 9 (3171)، والأدب 94 (6158)، صحیح مسلم/المسافرین 13 (336/82) سنن ابی داود/ الجہاد167 (2763)، (تحفة الأشراف: 18018)، وط/قصر الصلاة فی السفر 8 (28)، و مسند احمد (6/343، 423)، و سنن الدارمی/الصلاة 151 (1494) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: (حديث أبي هريرة) حسن، (حديث أم هانئ) صحيح (حديث أبي هريرة) ، المشكاة (3978 / التحقيق الثاني) ، (حديث أم هانئ) ، صحيح أبي داود (2468) ، الصحيحة (2049)