Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
12. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”مومنوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچ کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا، پس ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو (اللہ کے راستے میں شہید ہو کر) اپنا عہد پورا کر چکے اور کچھ ایسے ہیں جو انتظار کر رہے ہیں اور اپنے عہد سے وہ پھرے نہیں ہیں“۔
حدیث نمبر: 2806
وَقَالَ إِنَّ أُخْتَهُ وَهِيَ تُسَمَّى الرُّبَيِّعَ كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ امْرَأَةٍ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا فَرَضُوا بِالْأَرْشِ وَتَرَكُوا الْقِصَاصَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
انہوں نے بیان کیا کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی ایک بہن ربیع نامی رضی اللہ عنہا نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑ دیئے تھے ‘ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قصاص لینے کا حکم دیا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے (قصاص میں) ان کے دانت نہ ٹوٹیں گے۔ چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہو گئے اور قصاص کا خیال چھوڑ دیا ‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2806 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2806  
حدیث حاشیہ:
حضرت انس بن نضر ؓنے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں دونوں کاموں سے ناراض ہوں‘ مشرک تو کم بخت ناپاک ہیں جو ناحق پر لڑ رہے ہیں۔
ان سے قطعاً بیزار ہوں اور مسلمان جن کو حق پر جم کر لڑنا چاہئے تھا وہ بھاگ نکلے ہیں‘ ان کی حرکت کو بھی ناپسند کرتا ہوں اور تیری درگاہ میں معذرت کرتا ہوں کہ میں ان بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
یہ کہہ کر انہوں نے کفار پر حملہ کیا اور کتنوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر جام شہادت پی لیا۔
بھاگنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو جنگ احد میں ایک درے کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا اور بتاکید کہہ دیا گیا تھا کہ تا اذن ہرگز درہ نہ چھوڑیں مگر انہوں نے شروع میں مسلمانوں کی فتح دیکھی تو درہ خالی چھوڑ دیا اور جس میں سے کفار قریش نے دوبارہ وار کیا اور میدان احد کا نقشہ ہی بدل گیا‘ جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بہت ہی دردناک معرکہ ہے جس میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔
میدان احد میں گنج شہیدان ان ہی شہدائے احد کا یادگاری قبرستان ہے۔
جزاھم اللہ جزا حسنا بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے یہ سب پود اسی کی لگائی ہوئی ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2806   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2806  
حدیث حاشیہ:

غزوہ احد میں مسلمانوں کی ذرا سی غلطی سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔
بھگدڑ مچ گئی اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔
اس کردار کے متعلق حضرت انس بن نضر ؓنے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کی اس حرکت کو ناپسند کرتا ہوں اور اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں ان کی طرف سے معذرت کا طالب ہوں۔
البتہ مشرک حق کے خلاف لڑرہے ہیں، میں ان سے قطعاً بے زار ہوں لیکن میں بھاگنے والوں میں نہیں ہوں۔
یہ کہہ کر انھوں نے کفار پر حملہ کیا اور بہت سے کافروں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر کار خود بھی جام شہادت نوش کرلیا۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
۔
۔

دوسری حدیث میں حضرت انس بن نضر ؓ کی ایک کرامت کا ذکر ہے جو ان کی وفاداری اورجاں نثاری کی وجہ سے یہاں بیان کردی گئی ہے۔
ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی بات کومسترد کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے عدم وقوع کی خبردیناتھی جس کی تائید خود رسول اللہ ﷺ نے فرمادی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قسم پوری کرتا ہے،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ قصاص لینے والوں کے دل نرم ہوگئے اور وہ قصاص معاف کرکے دیت لینے پر راضی ہوگئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2806