Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
10. بَابُ مَنْ يُجْرَحُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:
باب: جو اللہ کے راستے میں زخمی ہوا؟ اس کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2803
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُكْلَمُ أَحَدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ، وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْكِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابوالزناد سے ‘ انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ہے ‘ وہ قیامت کے دن اس طرح سے آئے گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا ‘ رنگ تو خون جیسا ہو گا لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہو گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2803 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2803  
حدیث حاشیہ:
یعنی اللہ کو خوب معلوم ہے کہ خالص اس کی رضا جوئی کے لیے کون لڑتا ہے اور اس میں ریا اور ناموری کا شائبہ ہے یا نہیں۔
امام نوویؒ نے کہا ہے کہ جو شخص باغیوں یا رہزنوں کے ہاتھ سے زخمی ہو یا دین کی تعلیم کے دوران میں مر جائے اس کے لئے بھی یہی فضیلت ہے‘ آج کل جو مسلمان دشمنوں کے ہاتھ سے مظلومانہ قتل ہو رہے ہیں وہ بھی اسی ذیل میں ہیں (واللہ أعلم بالصواب)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2803   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2803  
حدیث حاشیہ:
اللہ جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ان الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کو ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے پیش نظر کرنا چاہیے۔
اس میں شہرت یا ناموری کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ جو شخص ڈاکوؤں،رہزنوں کے ہاتھوں زخمی ہوجائے یا دین کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے خون آلود ہوجائے تو اس کے لیے بھی یہی فضیلت ہے بشرط یہ کہ اسے زخم کے بھر جانے سے پہلے پہلے موت آجائے۔
زخم کے درست ہونے کے بعد اگرفوت ہواتو مذکورہ فضیلت کا حق دار نہیں ہوگا۔
اسے زخموں سمیت اٹھانے میں یہ علت ہے کہ قیامت کے دن اس کے ساتھ ایک گواہ بھی ہوگا کہ اس نے اللہ کی اطاعت میں اپنی جان کوکھپایا تھا۔
(فتح الباري: 26/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2803   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 237  
´ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ كَلْمٍ يُكْلَمُهُ الْمُسْلِمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَكُونُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهَا، إِذْ طُعِنَتْ تَفَجَّرُ دَمًا اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ، وَالْعَرْفُ عَرْفُ الْمِسْكِ " . . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر زخم جو اللہ کی راہ میں مسلمان کو لگے وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہو گا جس طرح وہ لگا تھا۔ اس میں سے خون بہتا ہو گا۔ جس کا رنگ (تو) خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی سی ہو گی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:: 237]
تشریح:
اس حدیث کی علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حدیث سے یہ ثابت کرنا ہے کہ مشک پاک ہے۔ جو ایک جما ہوا خون ہوتا ہے۔ مگر اس کے جمنے اور اس میں خوشبو پیدا ہو جانے سے اس کا خون کا حکم نہ رہا۔ بلکہ وہ پاک صاف مشک کی شکل بن گئی ایسے ہی جب پانی کا رنگ یا بو یا مزہ گندگی سے بدل جائے تو وہ اصل حالت طہارت پر نہ رہے گا بلکہ ناپاک ہو جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 237   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5533  
5533. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہوتا ہے وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کا زخم خون ٹپکاتا ہوگا۔ اس کا رنگ تو خون کے رنگ جیسا ہوگا لیکن اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5533]
حدیث حاشیہ:
مشک کے ذکر کی مناسبت اس مقام میں یہ ہے کہ جیسے کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے ایسے ہی مشک بھی پہلے ایک گندہ، خون ہوتی ہے پھر سوکھ کر پاک ہو جاتی ہے مشک کا باجماع اہل اسلام پاک ہونا متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشک کا استعمال فرمایا کرتے تھے اور آپ نے جنت کی مٹی کے لیے فرمایا کہ وہ مشک جیسی خوشبو دار ہے اور قرآن مجید میں ہے ختامه مسك اور مسلم نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ مشک سب خوشبوؤں سے بڑھ کر عمدہ خوشبو ہے الغرض مشک پاک ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5533   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 237  
237. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں مسلمان کو جو زخم لگتا ہے، قیامت کے دن وہ اپنی اصلی حالت میں ہو گا جیسے زخم لگتے وقت تھا، خون بہہ رہا ہو گا، اس کا رنگ تو خون جیسا ہو گا مگر خوشبو کستوری کی طرح ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:237]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے نزدیک اس حدیث سے یہ ثابت کرنا ہے کہ مشک پاک ہے۔
جو ایک جما ہوا خون ہوتا ہے۔
مگر اس کے جمنے اور اس میں خوشبو پیدا ہوجانے سے اس کا خون کا حکم نہ رہا۔
بلکہ وہ پاک صاف مشک کی شکل بن گئی، ایسے ہی جب پانی کا رنگ یا بو یا مزہ گندگی سے بدل جائے تووہ اصل حالت طہارت پر نہ رہے گا بلکہ ناپاک ہوجائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 237   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 555  
´راہ جہاد میں زخمی ہونے والے کی فضیلت`
«. . . 349- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، لا يكلم أحد فى سبيل الله -والله أعلم بمن يكلم فى سبيله- إلا جاء يوم القيامة وجرحه يثعب دما، اللون لون دم والريح ريح مسك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے جو آدمی بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ جانتا ہے کہ کون اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے تو یہ شخص قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ اس کا رنگ خون جیسا ہو گا اور اس کو خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 555]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2803، من حديث مالك، ومسلم 105/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ عام کاموں میں سب سے افضل کام اللہ کے راستے میں جہاد ہے۔
➋ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ اس حدیث کے عموم میں ہر وہ شخص داخل ہے جو نیکی، حق اور خیر کے لئے نکلے، نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے منع کرے۔ دیکھئے: [التمهيد 19/14]
➌ جو شخص جس حال میں شہید ہوتا ہے تو اسی حال میں اسے زندہ کیا جائے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شہید کو غسل نہیں دیا جاتا۔
➍ ہاتھ اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ صفت کا انکار کر کے اس سے قدرت مراد لینا باطل ہے۔
➎ بیان کی تاکید کے لئے قسم کھانا جائز ہے۔
➏ حدیث کے الفاظ: اور اللہ جانتا ہے کہ کون اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔ مجاہد کے لئے خلوصِ نیت کی ضرورت و اہمیت کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 349   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3149  
´اللہ کے راستے میں زخمی ہونے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ کے راستے میں گھائل ہو گا، اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ۱؎ تو قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ اس کے زخم سے خون ٹپک رہا ہو گا۔ رنگ خون کا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
1) حدیث نمبر 3143 میں یہ الفاظ تھے: رنگ تو زعفران کا ہوگا دراصل زعفران کا اپنا رنگ خون کی طرح سرخ ہی ہوتا ہے‘ چونکہ زعفران قیمتی اور خوشبو دار چیز ہے‘ لہٰذا بطور اعزاز زعفران کی طرف نسبت کردی اور اس روایت میں اصل حقیقت بیان فرمادی۔ مفوہم میں کوئی فرق نہیں۔ واللہ اعلم۔ (2) اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیونک اس با ت کا تعلق نیت سے ہے اور نیت اللہ تعا لیٰ ہی جان سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3149   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2795  
´اللہ کی راہ میں لڑنے کا ثواب۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی ہونے والا شخص (اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہو رہا ہے) قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم بالکل اسی دن کی طرح تازہ ہو گا جس دن وہ زخمی ہوا تھا، رنگ تو خون ہی کا ہو گا، لیکن خوشبو مشک کی سی ہو گی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2795]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہاد میں زخمی ہونا بھی بہت بڑی فضیلت کا باعث ہے۔

(2)
قیا مت کے دن جس طرح شہید کی عزت افزائی ہوگی اسی طرح جہاد میں زخمی ہونے والے کی بھی عزت افزائی ہوگی۔

(3)
یہ عزت افزائی صرف اس شخص کی ہوگی جس نے خلوص دل کے ساتھ محض اللہ کی رضا کے لیے جہاد کیا ہوگا۔

(4)
نیت کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔
ہمیں ظاہری حالات کے مطابق مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔
اگر اس کی نیت درست نہیں تو اللہ تعالی خود ہی اسے سزا دے گا۔
شہید یا زخمی کے زخم کا تازہ ہونا اس کا نیک عمل لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے ہوگا اور خون کا خوشبودار ہونا اللہ کی خوشنودی کا مظہر ہوگا۔
اور اس کی قربانی قبول ہونے کی علامت ہوگا۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2795   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1656  
´اللہ کی راہ میں زخمی ہونے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جو بھی زخمی ہو گا - اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ۱؎ - قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خون کے رنگ میں رنگا ہوا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1656]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی راہ جہاد میں زخمی ہونے والا کس نیت سے جہاد میں شریک ہواتھا،
اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے کیوں کہ اللہ کے کلمہ کی بلندی کے سوا اگر وہ کسی اور نیت سے شریک جہاد ہوا ہے تو وہ اس حدیث میں مذکور ثواب سے محروم رہے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1656   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4862  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم بہہ رہا ہو گا، رنگ خون آلود ہو گا اور خوشبو، کستوری کی طرح ہو گی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4862]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يَثعُبُ:
تیزی سے بہہ رہا ہوگا،
جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
يَتَفَجَّرُ:
پھوٹ رہا ہوگا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4862   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:237  
237. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں مسلمان کو جو زخم لگتا ہے، قیامت کے دن وہ اپنی اصلی حالت میں ہو گا جیسے زخم لگتے وقت تھا، خون بہہ رہا ہو گا، اس کا رنگ تو خون جیسا ہو گا مگر خوشبو کستوری کی طرح ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:237]
حدیث حاشیہ:
اس خون کا رنگ توخون جیسا ہو گا۔
مگر خوشبو کستوری کی طرح ہوگی۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس جملے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ قیامت کے دن شہیدوں کے زخم اور ان سے بہتا ہوا خون تمام اہل محشر کو دکھایا جائے گا تاکہ ان کی فضیلت اور ظالموں کا ظلم سب پر عیاں ہوجائے اور ان کے خون سے مشک کی طرح خوشبو مہکنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمام اہل موقف ان کی عظمت کو جان لیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت نے شہداء کےزخموں سے خون صاف کرنے کی ممانعت کردی ہے، بلکہ انھیں اسی حالت میں دفن کرنے کی تلقین کی ہے۔
(فتح الباري: 448/1)

بظاہر اس حدیث کی عنوان سے کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی تو پھر امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں کیوں لائے ہیں کیونکہ یہ حدیث خون کی طہارت ونجاست کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں زخمی ہونے والوں کی فضیلت بیان کرنے کے لیے لائی گئی ہے، اس بنا پر توجیہ مناسبت میں شارحین کے متعدد اقوال ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ امام بخاری درجہ اجتہاد پر فائز ہیں اور کسی کی تقلید نہیں کرتے، وہ خود اپنے فہم وعلم کے مطابق شرعی نصوص سے استنباط کرتے ہیں۔
انھیں کسی موافقت یا مخالفت سے کوئی غرض نہیں، بلکہ وہ تو اتباع نصوص کے خوگر ہیں۔
چونکہ ان کے مختارات فقہیہ کو جمع نہیں کیا گیا،اس لیے ان کے قائم کردہ عنوانوں پر کھینچ تان رہتی ہے، ہر ایک انھیں اپنے موافق کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ان کوششوں کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
کسی شاعر نے خوب کہا ہے:
وكل يدَّعي وصلاً بليلى .... وليلى لا تقر لهم بذاك.... اس حدیث کی عنوان سے مطابقت کی بابت حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا مقصد اپنے موقف کی تائید کرنا ہے کہ پانی محض نجاست کے مل جانے سے نجس نہیں ہوتا جب تک اس میں تغیر نہ آجائے۔
یہ اس لیے کہ صفت کے بدلنے سے موصوف پر اثر ہوتا ہے، جس طرح خون کی ایک صفت بو والی، خوشبو میں بدل جانے سے اس کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی اور ذم کے بجائے اس میں مدح کا پہلو پیدا ہوگیا، اسی طرح پانی کی کوئی صفت اگرنجاست کی وجہ سے بدل جائے تو اس کی طہارت کا حکم بدل کر نجاست کا حکم آجائے گا اورجب تک تغیر نہیں ہوگا نجاست نہیں آئےگی۔
(فتح الباري: 449/1)
بشرطیکہ دو قُلے یا اس سے زیادہ ہو۔
قلتین سے مراد پانچ حجازی مشکیں ہیں، جو پانچ سو رطل کے قریب ہے۔
(تحفة الأحوذي: 71/1)
موجودہ اعشاری وزن 197 کلو گرام ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 237   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5533  
5533. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہوتا ہے وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کا زخم خون ٹپکاتا ہوگا۔ اس کا رنگ تو خون کے رنگ جیسا ہوگا لیکن اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5533]
حدیث حاشیہ:
جس طرح مردار جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے اسی طرح ہرن کے نافے سے نکلنے والا خون خشک ہونے کے بعد پاک ہو جاتا ہے اور یہی کستوری ہے۔
متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کستوری استعمال کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی مٹی کے متعلق فرمایا:
وہ مشک جیسی خوشبودار ہے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 349)
اور اہل جنت کے پسینے سے کستوری جیسی خوشبو آئے گی۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3246)
ایک حدیث میں ہے کہ کستوری تمام خوشبوؤں سے بڑھ کر عمدہ خوشبو ہے۔
(صحیح مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، حدیث:
(19)
2252)

ارشاد باری تعالیٰ:
شراب طہور کی مہر مشک کی ہو گی۔
(المطففین: 26)
الغرض مشک پاک ہے اور بہترین خوشبو ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5533