Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
30. باب مَا جَاءَ فِي التَّعْزِيرِ
باب: تعزیر (تادیبی کاروائی) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1463
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبيبٍ , عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ , إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ , وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّعْزِيرِ , وَأَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي التَّعْزِيرِ , هَذَا الْحَدِيثُ , قَالَ: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ بُكَيْرٍ , فَأَخْطَأَ فِيهِ , وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ خَطَأٌ , وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ , إِنَّمَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوبردہ بن نیار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: دس سے زیادہ کسی کو کوڑے نہ لگائے جائیں ۱؎ سوائے اس کے کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف بکیر بن اشج کی روایت سے جانتے ہیں۔
۲-تعزیر کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تعزیر کے باب میں یہ حدیث سب سے اچھی ہے،
۳- اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بکیر سے روایت کیا ہے، لیکن ان سے اس سند میں غلطی ہوئی ہے، انہوں نے سند اس طرح بیان کی ہے: «عن عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد الله عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» حالانکہ یہ غلط ہے، صحیح لیث بن سعد کی حدیث ہے، اس کی سند اس طرح ہے: «عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد الله عن أبي بردة بن نيار عن النبي صلى الله عليه وسلم» ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحدود 42 (6848)، صحیح مسلم/الحدود 9 (1708)، سنن ابی داود/ الحدود 39 (4491)، سنن ابن ماجہ/الحدود 32 (2601)، (تحفة الأشراف: 11720)، و مسند احمد (3/466)، سنن الدارمی/الحدود 11 (2360) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اور غلام و خادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تو دس کوڑے تک کی سزا دے، رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے جیسا کہ خائن، لٹیرے، ڈاکو اور اچکے پر خاص حد نہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پر منحصر ہے، اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تو دس کوڑے سے زیادہ جتنا چاہے حتیٰ کہ قتل تک سزا دے سکتا ہے، رہ گئی زیر نظر حدیث تو اس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے، مثلاً والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔
۲؎: ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے، چنانچہ «ومن يتعد حدود الله فأولئك هم الظالمون» (البقرة: ۲۲۹) اسی طرح «تلك حدود الله فلا تقربوها» (البقرة: ۱۸۷) میں حدود کا یہی مفہوم ہے۔ اگر بات شریعت کے اوامر و نواہی کی ہو تو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیار کی اجازت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2601)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1463 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1463  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اورغلام وخادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تودس کوڑے تک کی سزادے،
رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقررنہیں کی ہے جیساکہ خائن،
لٹیرے،
ڈاکواوراچکے پرخاص حد نہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پرمنحصرہے،
اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تودس کوڑے سے زیادہ جتنا چاہے حتی کہ قتل تک سزا دے سکتا ہے،
رہ گئی زیرنظرحدیث تواس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے،
مثلاً والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔

2؎:
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے،
چنانچہ  ﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (البقرة: 229) اسی طرح ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا﴾  (البقرة: 187) میں حدود کا یہی مفہوم ہے۔
اگربات شریعت کے اوامرونواہی کی ہوتو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیارکی اجازت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1463   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1075  
´تعزیر اور حملہ آور (ڈاکو) کا حکم`
سیدنا ابوبردہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا حدود اللہ میں سے کسی حد کے سوا دس کوڑوں سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ (بخاری ومسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1075»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب كم التعزير والأدب، حديث:6848، ومسلم، الحدود، باب قدر أسواط التعزير، حديث:1708.»
تشریح:
حنفی‘ مالکی اور شافعی حضرات نے اس حدیث کی مخالفت کی ہے‘ اس لیے کہ ان حضرات نے دس کوڑوں سے زیادہ سزا دینا جائز قرار دیا ہے۔
اس مسئلے میں لمبی تفصیل ہے جسے اس مقام پر بیان کرنے کا موقع نہیں۔
بہرحال راجح بات وہی ہے جس پر یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ مقررہ حدود کے سوا دس کوڑوں سے زائد کی سزا جائز نہیں۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوبُرْدَہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ انصار کے حلیف قبیلۂبَنُوبَلِيّ سے تھے۔
شرف صحابیت سے سرفراز تھے۔
ان کا نام ہانی بن نیار تھا۔
بدر کے علاوہ دیگر غزوات میں بھی شریک ہوئے۔
۴۱‘ ۴۲ یا ۴۵ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1075