سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
15. باب مَا جَاءَ فِي الْعُمْرَى
باب: عمریٰ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1350
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ , فَإِنَّهَا لِلَّذِي يُعْطَاهَا لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ , وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ الزُّهْرِيِّ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَلِعَقِبِهِ , وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ جَابِرٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا وَلَيْسَ فِيهَا لِعَقِبِهِ " , وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: إِذَا قَالَ: هِيَ لَكَ حَيَاتَكَ وَلِعَقِبِكَ , فَإِنَّهَا لِمَنْ أُعْمِرَهَا , لَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ , وَإِذَا لَمْ يَقُلْ لِعَقِبِكَ , فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَى الْأَوَّلِ إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا " , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ , فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ , وَإِنْ لَمْ تُجْعَلْ لِعَقِبِهِ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس آدمی کو عمریٰ دیا گیا وہ اس کا ہے اور اس کے گھر والوں یعنی ورثاء کا ہے کیونکہ وہ اسی کا ہو جاتا ہے جس کو دیا جاتا ہے، عمری دینے والے کی طرف نہیں لوٹتا ہے اس لیے کہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث ثابت ہو گئی ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسی طرح معمر اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے مالک کی روایت ہی کی طرح روایت کی ہے اور بعض نے زہری سے روایت کی ہے، مگر اس نے اس میں
«ولعقبه» کا ذکر نہیں کیا ہے،
۳- اور یہ حدیث اس کے علاوہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عمریٰ جس کو دیا جاتا ہے اس کے گھر والوں کا ہو جاتا ہے
“ اور اس میں
«لعقبه» کا ذکر نہیں ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب دینے والا یہ کہے کہ یہ تیری عمر تک تیرا ہے اور تیرے بعد تیری اولاد کا ہے تو یہ اسی کا ہو گا جس کو دیا گیا ہے۔ اور دینے والے کے پاس لوٹ کر نہیں جائے گا اور جب وہ یہ نہ کہے کہ
(تیری اولاد) کا بھی ہے تو جسے دیا گیا ہے اس کے مرنے کے بعد دینے والے کا ہو جائے گا۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے
۱؎،
۵- اور دیگر کئی سندوں سے مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عمریٰ جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہو جائے گا
“،
۶- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں: جس کو گھر دیا گیا ہے اس کے مرنے کے بعد وہ گھر اس کے وارثوں کا ہو جائے گا اگرچہ اس کے وارثوں کو نہ دیا گیا ہو۔ سفیان ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے
۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الہبة 32 (2625)، صحیح مسلم/الہبات 4 (1626)، سنن ابی داود/ البیوع 87 (3550-3552)، و 88 (3553- 3557) و 89 (3558)، سنن النسائی/العمری 2 (3758، 3760-3762، و 3766-3770)، و 3 (771-3773، 3782)، 4 (3782)، سنن ابن ماجہ/الہبات 3 (2380)، و 4 (2382)، (تحفة الأشراف: 3148) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: ان کا کہنا ہے کہ اس نے اس آدمی کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا اختیار دیا تھا نہ کہ اس چیز کا اسے مالک بنا دیا تھا۔
۲؎: عمرہ کی تین قسمیں ہیں: ایک ہمیشہ ہمیش کے لیے دینا، مثلاً یوں کہے کہ یہ مکان ہمیشہ کے لیے تمہارا ہے یا یوں کہے کہ یہ چیز تیرے اور تیرے وارثوں کے لیے ہے، تو یہ اس کی ملکیت میں دینا اور ہبہ کرنا ہو گا جو دینے والے کی طرف لوٹ کر نہیں آئے گا، دوسری قسم وہ ہے جو وقت کے ساتھ مقید ہو، مثلاً یوں کہے کہ یہ چیز تمہاری زندگی تک تمہاری ہے اس صورت میں نہ یہ ہبہ شمار ہو گی نہ تملیک بلکہ یہ عارضی طور پر ایک مخصوص مدت تک کے لیے عاریۃً دینا شمار ہو گا، مدت ختم ہونے کے ساتھ یہ چیز پہلے کی طرف لوٹ جائے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس شرط کے ساتھ عمریٰ صحیح نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس طرح مشروط طور پر عمریٰ کرنا صحیح ہے مگر شرط فاسد ہے، پہلے کی طرف نہیں لوٹے گی، لیکن راجح قول پہلا ہی ہے، آخری دونوں قول مرجوح ہیں، اور تیسری قسم بغیر کسی شرط کے دینا ہے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے اپنا مکان تمہارے لیے عمریٰ کیا، جمہور نے اس صورت کو بھی تملیک پر محمول کیا ہے، اس صورت میں بھی وہ چیز پہلے کی طرف واپس نہیں ہو گی، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ منافع کی ملکیت کی صورت ہے، رقبہ کی ملکیت کی نہیں، لہٰذا جسے یہ چیز عمریٰ کی گئی ہے اس کی موت کے بعد وہ پہلے کی طرف لوٹ آئے گی، لیکن راجح جمہو رہی کا قول ہے۔قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2380)