Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
60. باب مَا جَاءَ فِي احْتِلاَبِ الْمَوَاشِي بِغَيْرِ إِذْنِ الأَرْبَابِ
باب: مالک کی اجازت کے بغیر جانور کے دوہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1296
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ عَلَى مَاشِيَةٍ فَإِنْ كَانَ فِيهَا صَاحِبُهَا فَلْيَسْتَأْذِنْهُ، فَإِنْ أَذِنَ لَهُ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا أَحَدٌ فَلْيُصَوِّتْ ثَلَاثًا، فَإِنْ أَجَابَهُ أَحَدٌ فَلْيَسْتَأْذِنْهُ، فَإِنْ لَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَلَا يَحْمِلْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى 12: وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يُحَدِّثُ عَنْ صَحِيفَةِ سَمُرَةَ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی ریوڑ کے پاس (دودھ پینے) آئے تو اگر ان میں ان کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے، اگر وہ اجازت دیدے تو دودھ پی لے۔ اگر ان میں کوئی نہ ہو تو تین بار آواز لگائے، اگر کوئی جواب دے تو اس سے اجازت لے لے، اور اگر کوئی جواب نہ دے تو دودھ پی لے لیکن ساتھ نہ لے جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سمرہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں عمر اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،
۴- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ سمرہ سے حسن کا سماع ثابت ہے،
۵- بعض محدثین نے حسن کی روایت میں جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے کلام کیا ہے، وہ لوگ کہتے ہیں کہ حسن سمرہ کے صحیفہ سے حدیث روایت کرتے تھے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 93 (2619)، (تحفة الأشراف: 4591) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حکم اس پریشان حال اور مضطر و مجبور مسافر کے لیے ہے جسے کھانا نہ ملنے کی صورت میں اپنی جان کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو یہ تاویل اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ حدیث ایک دوسری حدیث «للايحلبنّ أحد ماشية أحدٍ بغير إذنه» کے معارض ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کے پاس بھی لکھی ہوئی احادیث کا صحیفہ تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2300)

قال الشيخ زبير على زئي: (1296) إسناده ضعيف / د 2619

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1296 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1296  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حکم اس پرپشان حال اور مضطرومجبورمسافر کے لیے ہے جسے کھانا نہ ملنے کی صورت میں اپنی جان کے ہلاک ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو یہ تاویل اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ حدیث ایک دوسری حدیث لايحلبنّ أحد ماشية أحدٍ بغير إذنه کے معارض ہے۔
2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے پاس بھی لکھی ہوئی احادیث کا صحیفہ تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1296   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2619  
´مسافر کھجور کے باغات یا دودھ والے جانوروں کے پاس سے۔`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی جانور کے پاس سے گزرے اور اس کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے، اگر وہ اجازت دیدے تو دودھ دوہ کر پی لے اور اگر اس کا مالک موجود نہ ہو تو تین بار اسے آواز دے، اگر وہ آواز کا جواب دے تو اس سے اجازت لے، ورنہ دودھ دوہے اور پی لے، لیکن ساتھ نہ لے جائے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2619]
فوائد ومسائل:

ان احادیث کی کتاب الجہاد میں بیان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مجاہدین سفر میں ہوتے ہیں۔
اور کھانا پینا ان کی لازمی ضرورت ہے۔
اور اہل علاقہ یہ ضروریات مہیا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔


علامہ خطابی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔
کہ یہ رخصت ایسے مسافر کےلئے ہے۔
جو اضطراری (مجبوری کی) کیفیت میں ہوکہ اگر وہ نہ کھائے پئے تو ہلاکت کا اندیشہ ہو جبکہ کچھ اصحاب الحدیث کہتے ہیں۔
یہ ایسا مال ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس کا مالک بنایا ہے۔
(جان بچانے کی حد تک اسے کھانے کی اجازت دی ہے۔
)
تو اس کے لئے مباح ہے۔
اور اس پرکوئی قیمت لازم نہیں آتی۔
مگر اکثر فقہاء کا کہنا ہے کہ اس پرقیمت لازم ہوگی۔
بشرط یہ کہ وہ قیمت دے سکتا ہو۔
کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔
کسی مسلمان کی خوش دلی اوررضامندی کے بغیر اس کا مال لینا حلال نہیں ہے۔
(مسنداحمد:72/5) تاہم اگر کسی علاقے کے عرف عام میں تھوڑے بہت کھانے پینے کی اجازت ہوتو وہاں اجازت کی ضرورت ہوگی۔
نہ قیمت دینے کی۔
عرف عام ہی اجازت کے مترادف ہوگا۔
جیسا کہ آج سے پیشتر عام دیہاتوں میں یہ عرف عام تھا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2619