Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
54. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي أَكْلِ الثَّمَرَةِ لِلْمَارِّ بِهَا
باب: راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1288
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَرْمِي نَخْلَ الْأَنْصَارِ، فَأَخَذُونِي، فَذَهَبُوا بِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا رَافِعُ، لِمَ تَرْمِي نَخْلَهُمْ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْجُوعُ، قَالَ: " لَا تَرْمِ، وَكُلْ مَا وَقَعَ أَشْبَعَكَ اللَّهُ وَأَرْوَاكَ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
رافع بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے آپ نے پوچھا: رافع! تم ان کے کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا: پتھر مت مارو، جو خودبخود گر جائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 94 (2622)، سنن ابن ماجہ/التجارات 67 (2299)، (تحفة الأشراف: 3595) (ضعیف) (سند میں ”صالح“ اور ان کے باپ ”ابو جبیر“ دونوں مجہول ہیں، اور ابوداود وابن ماجہ کی سند میں ”ابن ابی الحکم“ مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2299) // ضعيف سنن ابن ماجة (504) ، ضعيف الجامع الصغير (6210) ، ضعيف أبي داود (564 / 2622) مع اختلاف باللفظ //

قال الشيخ زبير على زئي: (1288) إسناده ضعيف
أبوجير لم يوثقه غير الترمذي وھو مقبول عند الحافظ ابن حجر (تق:8010) أي مجھول الحال وللحديث شاھد ضعيف عند أبى داود (2622)و ابن ماجه (2299)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1288 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1288  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں صالح اوران کے باپ ابوجبیر دونوں مجہول ہیں،
اور ابوداؤد وابن ماجہ کی سند میں ابن ابی الحکم مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1288