سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
38. باب
باب: خرید و فروخت (بیع و شرائط) سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1264
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ، وَقَيْسٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالُوا: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَلَى آخَرَ شَيْءٌ فَذَهَبَ بِهِ، فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ شَيْءٌ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ عَنْهُ بِقَدْرِ مَا ذَهَبَ لَهُ عَلَيْهِ، وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَقَالَ: إِنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَرَاهِمُ، فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ دَنَانِيرُ فَلَيْسَ لَهُ، أَنْ يَحْبِسَ بِمَكَانِ دَرَاهِمِهِ إِلَّا أَنْ يَقَعَ عِنْدَهُ لَهُ دَرَاهِمُ فَلَهُ حِينَئِذٍ، أَنْ يَحْبِسَ مِنْ دَرَاهِمِهِ بِقَدْرِ مَا لَهُ عَلَيْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے امانت لوٹاؤ
۱؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ
(بھی) خیانت نہ کرو
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمہ کوئی چیز ہو اور وہ اسے لے کر چلا جائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کر گیا ہے،
۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے، اور یہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں: اگر اس کے ذمہ درہم ہو اور
(بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آ گئے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آ جائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہو گا کہ اس کے دراہم میں سے اتنا روک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 81 (3535)، (تحفة الأشراف: 12836)، وسنن الدارمی/البیوع 57 (2639) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے: «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها» (النساء: ۵۸)۔
۲؎: یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے: «وجزاء سيئة سيئة مثلها» (الشورى: ۴۰) ”برائی کی جزاء اسی کے مثل برائی ہے“ نیز ارشاد ہے: «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به» (النحل: ۱۲۶) یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ اپنا حق وصول کر لینا چاہیئے، ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابو پانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے، اور یہ خیانت میں شمار نہیں ہو گی بلکہ خیانت اس صورت میں ہو گی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2934) ، الصحيحة (4230) ، الروض النضير (16)
قال الشيخ زبير على زئي: (1264) إسناده ضعيف / د 3535
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1264 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1264
اردو حاشہ:
وضاخت:
1؎:
یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے:
﴿إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾ (النساء: 58)
2؎:
یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاباری ہے:
﴿وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا﴾ (الشورى: 40) (برائی کی جزاء اسی کے مثل بُرائی ہے) نیز ارشاد ہے:
﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ﴾ (النحل: 126) یہ دونوں آیتیں اس بات پردلالت کررہی ہیں کہ اپنا حق وصول کرلینا چاہئے،
ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابوپانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے،
اور یہ خیانت میں شمارنہیں ہوگی بلکہ خیانت اس صورت میں ہوگی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1264
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 752
´ادھار لی ہوئی چیز کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کسی نے تمہارے پاس امانت رکھی ہو تو اسے امانت واپس کر دو اور جس نے تیرے ساتھ خیانت کی تو اس کے ساتھ خیانت نہ کر۔“ اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ابوحاتم رازی نے اسے منکر سمجھا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 752»
تخریج: «أخرجه أبواداود، البيوع، باب في الرجل يأخذ حقه من تحت يده، حديث:3535، الترمذي، البيوع، حديث:1264، والحاكم:2 /46 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي.* حميد الطويل عنعن، وانظر علل الحديث لابن أبي حاتم:1 /375، وللحديث شواهد.»
تشریح:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم اس میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ دیگر دلائل کی روشنی میں درست ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 752
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3535
´کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تمہارے پاس امانت رکھی اسے امانت (جب وہ مانگے) لوٹا دو اور جس نے تمہارے ساتھ خیانت (دھوکے بازی) کی ہو تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3535]
فوائد ومسائل:
فائدہ: عام قسم کے معاملات میں اگرکوئی کسی پر زیادتی کرے۔
تو ادلے کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم نے (وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُه) (الشوریٰ:40) بُرائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے۔
کے قاعدے سے اس کی اجازت دی ہے۔
مگر ایسے حقوق جن میں حدود لاگو ہوتی ہیں۔
ان کا فیصلہ کرنا حاکم کا کام ہے۔
اس طرح خیانت کا معاملہ بھی خاص ہے۔
اگر کسی نے ظلم سے حق مار لیا ہو۔
اور واپس کرنے سے انکاری ہو اور پھر اتفاق سے اس کی کوئی امانت یا عاریت مظلوم کے ہاتھ آجائے۔
تو کیا وہ اپنا حق رکھ کر واپس کرے۔
یا امانت پوری طرح واپس کردے۔
احادیث مندرجہ بالا خیانت کی اجازت نہں دیتیں۔
اور خیانت ہمیشہ دھوکے اور چوری سے ہوتی ہے۔
تو کسی مسلمان کو اس کی عام اجازت نہیں دی جا سکتی۔
البتہ اگر صراحت کردے کہ میں اپنا فلاں حق وصول کررہا ہوں تو جائز ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3535