سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
32. باب مَا جَاءَ فِي شِرَاءِ الْقِلاَدَةِ وَفِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ
باب: سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار خریدنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1255
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فِيهَا ذَهَبٌ، وَخَرَزٌ فَفَصَلْتُهَا، فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنَ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفْصَلَ ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى 12: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، لَمْ يَرَوْا أَنْ يُبَاعَ السَّيْفُ مُحَلًّى، أَوْ مِنْطَقَةٌ مُفَضَّضَةٌ، أَوْ مِثْلُ هَذَا بِدَرَاهِمَ حَتَّى يُمَيَّزَ وَيُفْصَلَ، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، جس میں سونے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے، میں نے انہیں
(توڑ کر) جدا جدا کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ ملے۔ میں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:
”(سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار) نہ بیچے جائیں جب تک انہیں جدا جدا نہ کر لیا جائے
“۔ اسی طرح مؤلف نے قتیبہ سے اسی سند سے حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ چاندی جڑی ہوئی تلوار یا کمر بند یا اسی جیسی دوسرے چیزوں کو درہم سے فروخت کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں، جب تک کہ ان سے چاندی الگ نہ کر لی جائے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 17 (البیوع 38)، سنن ابی داود/ البیوع 13 (3351)، سنن النسائی/البیوع (4577)، (تحفة الأشراف: 11027)، و مسند احمد (6/19، 21) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع