حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى أَنْ يُتَلَقَّى الْجَلَبُ، فَإِنْ تَلَقَّاهُ إِنْسَانٌ فَابْتَاعَهُ فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ فِيهَا بِالْخِيَارِ، إِذَا وَرَدَ السُّوقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ، وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ، وَهُوَ ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ، مِنْ أَصْحَابِنَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے
(چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر مال خریدنے کو ناجائز کہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 506
´دوسرے کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . 353- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها، إن رضيها أمسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر سے سودا لانے والوں کو سودا خریدنے کے لئے پہلے جا کر نہ ملو اور نہ تم میں سے کوئی آدمی دوسرے سودے پر سودا کرے اور (دھوکا دینے کے لئے جھوٹی) بولی نہ لگاو اور شہری دیہاتی کے لئے نہ بیچے اور اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں (بیچنے کے لئے) دودھ نہ روکو، پھر اگر کوئی شخص اس کے بعد ایسا جانور خرید لے تو اسے دوھنے کے بعد دو میں سے ایک اختیار ہے: اگر اسے پسند ہو تو (سودا باقی رکھ کر) اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور اگر ناپسند ہو تو اس جانور کو کھجوروں کے ایک صاع کے ساتھ واپس کر دے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 506]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2150، ومسلم 11/1515، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے۔
➋ منڈی کے بھاؤ سے ناواقف شخص سے سستا سودا خریدنا تاکہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں پر مہنگے داموں بیچا جائے، حرام ہے۔
➌ جھوٹی بولی لگانا جائز نہیں ہے۔
➍ جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر جانور بیچنا حرام ہے۔ اس میں صریح دھوکا ہے۔
➎ اگر کوئی شخص تھنوں میں دودھ روکے ہوئے جانور کو خریدلے تو پھر اسے اختیار ہے کہ تین دن کے اندر اندر اسے بیچنے والے کو واپس کردے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع (ڈھائی کلو) بھی دے دے۔
◄ جلیل القدر فقیہ صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: جو شخص تھنوں میں دودھ روکی ہوئی بکری خریدے تو اس کے ساتھ کھجور کا ایک صاع بھی واپس کردے۔ [صحيح بخاري: 2149، وصحيح مسلم: 1518]
● معلوم ہوا کہ حدیث بالا قیاس کے خلاف نہیں ہے لہٰذا بعض منکرینِ حدیث کا اس حدیث کے سلسلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنا یا آپ کو غیر فقیہ کہنا غلط ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 353
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3241
´اپنے (کسی دینی) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دھوکہ دینے کیلئے) چیزوں کی قیمت نہ بڑھاؤ ۱؎، کوئی شہری دیہاتی کا مال نہ بیچے ۲؎، اور کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام دے، کوئی عورت اپنی بہن (سوکن) کے طلاق کی طلب گار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے پلٹ کر خود لے لے“ ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3241]
اردو حاشہ:
(1) ”بھاؤ نہ بڑھاؤ۔“ یعنی چیز خریدنے کی نیت نہیں ہوتی، صرف گاہک کو دھوکا دینے کی نیت سے زیادہ بھاؤ لگا دیتا ہے تاکہ وہ پھنس جائے۔ یہ دھوکا دہی اور ظلم ہے، لہٰذا منع ہے۔
(2) ”سامان نہ بیچے۔“ کیونکہ اس طرح مہنگائی بڑھے گی۔ ہاں اس کے لیے سامان خریدا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں مہنگائی کا خطرہ نہیں بلکہ مہنگائی میں کمی آئے گی۔
(3) ”سودا نہ کرے۔“ جب تک پہلا شخص سودا کر رہا ہے کسی دوسرے کو بھاؤ بگاڑنے کی اجازت نہیں۔ ہاں ان کا سودا نہ ہوسکے تو کوئی دوسرا شخص بھی سودا کرسکتا ہے۔
(4) ”مطالبہ کرے۔“ یعنی پہلی بیوی کو طلاق دو ورنہ نکاح نہ کروں گی۔ یہ ناجائز ہے کیونکہ یہ خود غرضی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3241
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3243
´اپنے (کسی دینی) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھائی کہیں نکاح کا پیغام دے چکا ہے، تو کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس جگہ جب تک کہ نکاح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہو جائے (نیا) پیغام نہ دے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3243]
اردو حاشہ:
”حتیٰ کہ وہ نکاح کرلے“ یعنی دوسرے شخص کو انتظار کرنا چاہیے، دیکھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اگر ان کی بات چیت کامیاب ہوجائے اور نکاح ہوجائے تو بہت اچھی بات ہے اور اگر بات طے نہ ہوسکے تو پھر دوسرا شخص بھی پیغام بھیج سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3243
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4492
´ «مصراۃ» (تھن باندھے جانور) کی بیع منع ہے «مصراۃ»: اس اونٹنی یا بکری کو کہتے ہیں: جس کے تھن کو باندھ دیا جاتا ہے اور دو تین دن اسے دوہنا ترک کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دودھ اکٹھا ہوتا رہتا ہے، خریدنے والا اس کا دودھ زیادہ دیکھ کر اس کی قیمت بڑھا دیتا ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے جا کر تجارتی قافلے سے مت ملو ۱؎ اور اونٹنیوں اور بکریوں کو ان کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ رکھو ۲؎، اگر کسی نے ایسا جانور خرید لیا تو اسے اختیار ہے چا [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4492]
اردو حاشہ:
(1) بیع المصراۃ، ناجائز اور حرام ہے کیونکہ اس میں دھوکا اور فریب ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔
(2) اس حدیث کی بابت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دھوکا دہی سے ممانعت، عیب کا پتا چلنے کے بعد خریدار کو چیز واپس کرنے کے اختیار اور مدتِ اختیار کے تعین میں اصل ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ اصل بیع حرام نہیں (الا یہ کہ خریدار اس سے راضی نہ ہو، مطلب یہ کہ پوشیدہ عیب کا علم ہو جانے کے بعد بھی اگر خریدار سودا واپس نہ کرنا چاہے، یعنی سودا فسخ نہ کرنا چاہے تو اسے، اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ سودا فسخ نہ کرے)۔
(3) جانور کے تھنوں میں دودھ، اس لیے روکا جاتا ہے تاکہ خریدار کو یہ معلوم ہو کہ جانور دودھیل (بہت دودھ دینے والا) ہے۔ اس طرح کے فریب کی وجہ سے خریدار زیادہ قیمت دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔
(4) تصریہ کی تفسیر باب میں بیان ہو چکی ہے۔ چونکہ اس کا مقصد خریدار کو دھوکا دینا ہے اور ایسا دھوکا لگنا بہت ممکن ہے، لہٰذا شریعت نے خریدار کو سودے کی منسوخی کا اختیار دیا ہے۔ اور اس میں کوئی اشکال نہیں۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں، البتہ احناف کو یہ بات اصول کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ طے شدہ سودے کو ایک فریق کیسے منسوخ کر سکتا ہے؟ حالانکہ دھوکا ایک بہت بڑا سبب ہے جو کسی بھی عقد کو فسخ کر سکتا ہے۔ خود احناف عیب کی بنا پر سودے کے فسخ کے قائل ہیں۔ اگر عیب معلوم ہونے سے سودا فسخ ہو سکتا ہے تو دھوکا معلوم ہونے سے سودا فسخ کیوں نہیں ہو سکتا؟
(5) ”کھجوروں کا ایک صاع“ اس دودھ کا معاوضہ جو پہلے مالک کے پاس ہوتے ہوئے جانور کے تھنوں میں جمع ہو چکا تھا اور خریدار نے وہ دودھ استعمال کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ دودھ تو کم و بیش ہو سکتا ہے، معاوضہ متعین کیوں کر دیا گیا؟ تو یہ دراصل قطع نزاع کے لیے ہے ورنہ قیمت کے تعین میں باہمی اختلاف ہو سکتا ہے۔ شریعت اس مسئلے میں ہم سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ تبھی پیٹ کا بچہ ضائع کر دینے کی صورت میں شریعت نے ایک غلام یا گھوڑا معاوضہ مقرر کیا ہے۔ وہ بچہ پانچ ماہ کا بھی ہو سکتا ہے، نو ماہ کا بھی۔ اور یہ ضروری نہیں کہ غلام اور گھوڑے کی قیمت برابر ہو۔ بلکہ غلام اور غلام۔ نیز گھوڑے اور گھوڑے کی قیمت بھی برابر نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح شریعت نے ہاتھوں اور پاؤں کی ہر ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ مقرر کر رکھی ہے، خواہ وہ چھنگلی ہو یا انگوٹھا، خواہ ہاتھ سے ہو یا پاؤں سے، حالانکہ سب کی جسامت او مفاد برابر نہیں۔ اور اونٹوں کی قیمت بھی ایک جیسی نہیں۔ صاع کیوں مقرر کیا گیا؟ حتیٰ کہ انہوں نے اپنا غصہ راویٔ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھی جھاڑا ہے کہ وہ فقیہ نہیں تھے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر چار سال تک صبح و شام رسول اللہ ﷺ سے فیض یاب ہونے والے وہ صحابی فقیہ نہیں بنے تو آپ حضرات کی فقاہت کی سند کیا ہے؟ چاند پر نہیں تھوکنا چاہیے ورنہ اپنا منہ بھی دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ چاند کا کچھ نہیں بگڑتا، نیز یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا فتویٰ نہیں کہ ان پر اعتراض کیا جائے بلکہ یہ تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جسے انہوں نے نقل فرمایا ہے، نیز یہ روایت تو احناف کے مسلمہ فقیہ صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی آتی ہے۔ اب اپنے گھر کو تو ڈھانے سے رہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ صحیح سند سے ثابت فرمان رسول کو بلاچون و چرا تسلیم کر لیا جائے اور شریعت کی باریکیوں کو شارع علیہ السلام کی بصیرت کے حوالے کر دیا جائے کہ رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔ مختصراً یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے جانور کے ساتھ ایک صاع کھجوریں دینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس جانور سے حاصل ہونے والے دودھ کا معاوضہ ہو جائے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب خریدار نے وہ جانور خریدا تھا تو کچھ دودھ اس کی ملکیت میں آنے سے پہلے پیدا ہو چکا تھا اور کچھ دودھ ملکیت میں آنے کے بعد پیدا ہوا ہے لیکن یہ قطعاً معلوم نہیں ہو سکتا کہ کتنے دودھ کی قیمت خریدار نے ادا کی ہے اور کتنا دودھ نیا ہے، اس لیے دودھ یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن ہی نہیں تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس دودھ کے مقابلے میں ایک صاع کھجوریں مقرر فرما دیں تاکہ مشتری اور بائع کے درمیان اختلاف پیدا نہ ہو۔ خریدنے والے شخص کو جو دودھ حاصل ہوا ہے یہ صاع اس کا معاوضہ بن جائے گا۔ اس معاملے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ دودھ، معاوضے سے زیادہ تھا یا تھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ دودھ کم تھا یا زیادہ، اس کو معلوم کرنے کا کوئی آلہ اور پیمانہ وجود میں آیا ہے نہ آ ہی سکتا ہے۔ و اللہ أعلم۔
(6) جن علاقوں میں کھجور فراواں نہیں ہوتی، وہاں اس علاقے کی عام خوراک دی جا سکتی ہے، مثلاً: ہمارے علاقے میں گندم دی جا سکتی ہے۔ یہاں تو کھجوروں کا صاع بہت مہنگا ہو گا۔ کھجور کا تعین عرب علاقے کی مناسبت سے ہے کہ وہاں کھجور عام خوراک تھی اور با آسانی اور بہ افراط ملتی تھی، جیسے ہمارے ہاں گندم ہے۔ لیکن اس میں بھی مستحب یہی ہے کہ پورا صاع گندم دی جائے۔ اور اسی طرح جس علاقے کی خوراک چاول ہو، وہاں ایک صاع چاول دئیے جا سکتے ہیں۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4492
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4496
´مہاجر (شہری) اعرابی (دیہاتی) کا مال بیچے کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر سامان خریدنے سے، مہاجر (شہری) کو دیہاتی کا مال بیچنے سے ۱؎، جانوروں کے تھن میں قیمت بڑھانے کے مقصد سے دودھ چھوڑنے سے، خود خریدنا مقصود نہ ہو لیکن دوسرے کو ٹھگانے کے لیے بڑھ بڑھ کر قیمت لگانے سے اور اپنے بھائی کے مول پر بھاؤ بڑھانے سے اور اپنی سوکن ۲؎ کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنے سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4496]
اردو حاشہ:
(1) ”باہر جا کر ملے“ یہ ایک طریقہ تھا تجارتی قافلے کو دھوکے میں رکھنے کا کہ منڈی میں داخل ہونے سے پہلے آگے جا کر تجارتی قافلے کے ساتھ سودے کر لیے جائیں تاکہ قافلے والوں کو منڈی کے بھاؤ کا علم نہ ہو سکے اور ان سے سستا مال خرید لیا جائے۔ دراصل اس میں دھوکا مقصود ہے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا بلکہ قافلے کو منڈی میں آنے دیا جائے، پھر ان سے سودے کیے جائیں۔
(2) ”کوئی شہری کسی اعرابی“ حدیث میں لفظ مہاجر استعمال ہوا ہے کیونکہ اس وقت اکثر مہاجر ہی تجارت کرتے تھے، انصار تو زمیندار تھے۔ فرمان کا مقصد یہ ہے کہ شہری آدمی دیہاتی کا سامان نہ بیچے کیونکہ اس سے مہنگائی پیدا ہو گی۔ آخر شہری نے اپنا کمیشن بھی تو نکالنا ہے۔ اگر دیہاتی خود اپنا سامان بیچے گا تو ظاہر ہے، وہ سستا بیچے گا کیونکہ اس نے اسی دن بیچ کر گھر واپس جانا ہوتا ہے جبکہ شہری اسے کہتا ہے کہ سامان میرے پاس رکھ چھوڑو، جب بھاؤ تیز ہو گا تو میں بیچ دوں گا۔ اس طریقے سے مہنگائی بڑھتی ہے، اس لیے منع فرمایا۔ ہاں، اگر شہری دیہاتی کے لیے کوئی چیز خریدے تو اجازت ہے کیونکہ اس سے مہنگائی نہیں ہو گی بلکہ وہ سستی چیز خریدے گا تاکہ کچھ اپنے لیے بھی بچا سکے۔
(3) ”بھاؤ بڑھائے“ کسی آدمی کی نیت چیز خریدنے کی نہیں لیکن وہ جان بوجھ کر ایک چیز کا بھاؤ زیادہ لگاتا ہے تاکہ اصل خریدار کو دھوکا دیا جا سکے اور وہ مہنگی خریدے۔ عام طور پر ایسے لوگ دکاندار کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو کمیشن لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دھوکا ہے، اس لیے منع کیا گیا ہے۔
(4) ”طلاق کا مطالبہ کرے“ کوئی عورت نکاح کے موقع پر یا بعد میں یہ شرط لگائے کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے۔ یا پہلی بیوی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی خود غرضی اور حسد کارفرما ہے۔ ہر عورت کا اپنا اپنا نصیب ہے جس پر اسے قناعت کرنی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4496
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4505
´آگے بڑھ کر تجارتی قافلے سے ملنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے جا کر تجارتی قافلے سے نہ ملو، جو اس سے جا کر ملا اور اس سے کوئی چیز خرید لی، جب اس کا مالک بازار آئے تو اسے اختیار ہو گا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4505]
اردو حاشہ:
”واپس کر لے“ کیونکہ تاجر نے اس سے دھوکا کیا ہے اور دھوکا شریعت میں جائز نہیں، لہٰذا وہ بیع فسخ ہو سکتی ہے بشرطیکہ مالک کو یہ محسوس ہو کہ مجھے دھوکا دے کر مال بازار سے کم قیمت پر خریدا گیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4505
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4506
´مسلمان بھائی کے دام پر دام لگانا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال ہرگز نہ بیچے، اور نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو، اور نہ آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے، اور نہ (مسلمان) بھائی کی شادی کے پیغام پر پیغام بھیجے اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے بھی اپنے لیے انڈیل لے (یعنی جو اس کی قسمت میں تھا وہ اسے مل جائے) بلکہ (بلا مطالبہ و شرط) نکاح کرے [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4506]
اردو حاشہ:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ سودے میں خرید و فروخت، دونوں چیزیں ہی آتی ہیں۔ تفصیل اس طرح ہے کہ کوئی شخص خریدار سے یہ کہے کہ اس سے یہ چیز نہ خرید۔ میں تجھے اس سے سستی دیتا ہوں اور نہ کوئی بیچنے والے سے یہ کہے کہ اسے نہ بیچ، میں یہ چیز اس سے زیادہ قیمت میں تجھ سے خرید لوں گا۔ یہ دونوں کام حرام ہیں۔
(2) یہ حدیث مبارکہ اس سے بھی روکتی ہے کہ کسی دیہاتی شخص کی چیز کوئی شہری بیچے، اس لیے کہ شہری کے لیے حرام ہے کہ وہ دیہاتی سے کہے کہ تو اپنا مال میرے پاس رکھ دے جب قیمت زیادہ ہو جائے گی، میں تیری چیز مہنگے داموں بیچ دوں گا۔ ہاں، اگر دیہاتی شخص کو منڈی وغیرہ کے بھاؤ کا کوئی علم نہیں یا یہ خطرہ ہے کہ خریدار اسے ”پینڈو“ سمجھتے ہوئے دھوکا دے کر اس کی چیز سستے داموں اس سے خرید لے گا او اسے لاعلمی کی وجہ سے اپنی چیز کی اصل اور مناسب قیمت بھی نہیں ملے گی اور کوئی شہری ازراہِ ہمدردی اس کا سودا، کما حقہ، مناسب قیمت کے عوض بیچ دے تو یہ عمل قابل تعریف ہے اور ایسا شخص عنداللہ اجر و ثواب کا حق دار ہے۔ ممانعت وہاں ہے جہاں شہری اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہو، دیہاتی کی خیر خواہی سرے سے مطلوب ہی نہ ہو۔
(3) یہ حدیث مبارکہ بیع نجش کی حرمت کی بھی دلیل ہے۔ بیع نجش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کا مقصد چیز خریدنا بالکل نہیں ہوتا لیکن دو سودا کرنے والوں کے پاس آ کر وہ بکنے والی چیز کی زیادہ قیمت لگا دیتا ہے تاکہ خریدار دھوکا کھا جائے اور ایک کم قیمت چیز، زیادہ قیمت میں خرید لے۔ ایسے عموماً دکانداروں کے ”پالتو“ ایجنٹ ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اس ناجائز حرکت اور غیر شرعی کام کے باقاعدہ پیسے لیتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر وہ صورت ناجائز اور حرام ہے جس سے دوسرے مسلمان کو نقصان پہنچانا مقصود ہو اور وہ صورت جائز اور ممدوح ہے جس میں دوسرے مسلمان کی خیر خواہی مطلوب ہو اور اس سے شریعت کا کوئی تقاضا بھی مجروح نہ ہوتا ہو۔ و اللہ أعلم۔
(4) یہ حدیث مبارکہ اس اہم اصول کی بھی صریح دلیل ہے کہ شریعت نے ہر اس سبب اور ذریعے کو قطعی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جو باہمی بغض و عناد کی طرف لے جانے والا ہو یا بخیلی، حسد اور کینے وغیرہ تک پہنچا دینے والا ہو۔ الغرض! شریعت مطہرہ نے ہر وہ دروازہ مسدود کر دیا ہے جو مذکورہ یا ان جیسی دیگر اشیاء کی طرف کھلتا ہو۔
(5) ”برتن انڈیل دے“ یعنی اس کو نکاح کے فوائد سے محروم کر دے۔ باقی دیکھئے روایت: 4496۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4506
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4511
´فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، اور نہ کوئی فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرے، اور نہ آدمی اپنے بھائی کی بیع پر اضافہ کرے، اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے اپنے میں انڈیل لے۔“ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4511]
اردو حاشہ:
”اضافے کا لالچ نہ دے“ یعنی ایک شخص سودا طے کر چکا ہے۔ اب کوئی اور شخص دکان دار کو زیادہ قیمت کا لالچ دے کر سابقہ سودا منسوخ کرنے اور اپنے ساتھ نیا سودا کرنے کی ترغیب دے، یہ منع ہے کیونکہ اس میں پہلے شخص کی حق تلفی ہے جو سودا کر چکا ہے۔ ایسی صورت میں دوسرا سودا معتبر نہیں ہو گا بلکہ کالعدم ہو گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4511
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3437
´تاجروں سے بازار میں آنے سے پہلے جا کر ملنا اور ان سے سامان تجارت خریدنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3437]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
راستے میں مال لانے والے سے مل کر سودا کرنے کا عموما مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔
کہ بازار سے کم قیمت پر خرید لیا جائے۔
اور بازار کا بھائو مالک کے علم میں ہی نہ آئے۔
یہ طریقہ تجارت کےآزادانہ طور پر جاری رہنے میں رکاوٹ ہے۔
مارکیٹ کے عوامل میں اس طرح کی مداخلت ممنوع ہے۔
دوسرے مسلمان بھائی کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
جو مذموم ہے۔
اس لئے ممانعت کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا کہ اگر راستے میں سودا طے ہو اور اس کے بعد بیچنے والے کو پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔
تو اسے بیع واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3437
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3443
´کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کے تھن میں کئی دن کا دودھ اکٹھا کیا گیا ہو اور بعد میں اس دھوکہ کا علم ہونے پر اس کو یہ بیع ناپسند ہو تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجارتی قافلوں سے آگے بڑھ کر نہ ملو ۱؎، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اور اونٹ و بکری کا تصریہ ۲؎ نہ کرو جس نے کوئی ایسی بکری یا اونٹنی خریدی تو اسے دودھ دوہنے کے بعد اختیار ہے، چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو پسند کر کے اسے واپس کر دے، اور ساتھ میں ایک صاع کھجور دیدے ۳؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3443]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
مذکورہ باب میں بنیادی طور پر یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔
ک ہ زیادہ قیمت حاصل کرنے کےلئے دودھ دینے والے جانورکا دودھ روکنا تاکہ گاہک اسے زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر زیادہ قیمت دے حرام ہے۔
خریدار کو تین دن تک آزمانے کی اجازت ہے۔
اگر وہ ایسا جانور نہ رکھنا چاہیں۔
تو واپس کرکے اپنی قیمت لےسکتا ہے۔
البتہ دودھ جو جانوروں کے تھنوں میں خریداری کے وقت سے پہلے کا تھا۔
اور بیع مکمل ہونے کی صورت میں بیچنے والے کی طرف سے اپنی مرضی کے ساتھ چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس کی حق دہی بھی ضروری ہے۔
اپنی پوری قیمت کی واپسی کے بعد خریدار کا اس پر حق باقی نہیں رہا۔
انصاف کےاعلیٰ معیار کے مطابق خریدار کو اس کے بدلے میں ایک صاع (تقریبا ڈھائی کلو) کھجور ادا کرنی چاہیے۔
عرب میں کھجور مقامی طور پر پیدا ہوتی تھی۔
اور سستی تھی۔
گندم خصوصاعمدہ قسم کی باہر سے لائی جاتی تھی۔
اس لئے مہنگی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے عام غذائی جنس دینے کا حکم دیا۔
کہ سمراء یعنی بڑھیا گندم دینے کی ضرورت نہیں۔
اس کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ واپس کرنے والے سے زیادہ بہتر غذا کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعلاوہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بھی یہی ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نےاس سے اختلاف نہیں کیا۔
(فتح الباري، کتاب البیوع، باب النھي للبائع أن لا یحفل۔
۔
۔
) صرف احناف میں سے بعض کی رائے اس کے مخالف ہے۔
جب کہ امام زفر ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی جمہور ہی کے ساتھ ہیں۔
البتہ امام ابو یوسف ہر صورت کھجور کا صاع دینے کی پابندی سے اختلاف رکھتے ہیں۔
اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی روا سمجھتے ہیں۔
(فتح الباري، کتاب البیوع، باب النھي للبائع أن لا یحفل۔
۔
۔
) اب اسلام بہت دور تک پھیل چکا ہے۔
انڈونیشیا۔
نایجریا۔
جیسے ممالک میں کھجور دستیاب ہیں نہیں۔
اس لئے اس علاقے کی باآسانی دستیاب غذائی جنس کھجور کے قائم مقام ہوگی۔
اور جس طرح امام ابو یوسف کا نقطعہ نظر ہے۔
ایسی جنس کی قیمت ادا کر دینا بھی درست ہوگا۔
واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3443
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2172
´نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا لگائے اور نہ اس کے دام پر دام لگائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
”بیع پر بیع“ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خریدنے والے سے کہے:
تونے جو چیز خریدی ہے واپس کردے، میں تجھےایسی ہی چیز اس سے کم قیمت پر دوں گا۔
یا بیچنے والے سے کہے:
جو چیز بیچی ہے واپس لےلو، میں تمہیں اس سے زیادہ قیمت دے دوں گا۔
یہ دونوں باتیں منع ہیں کیونکہ ایسی باتوں سے جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے۔
(2)
سودے پر سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز خرید رہا ہے، وہ کہتا ہے:
میں اتنی قیمت دوں گا۔
دوسرا آدمی اس سے زیادہ قیمت پیش کرنےلگے تا کہ پہلا آدمی دھوکا کھا کر زیادہ قیمت پر خرید لے۔
(3)
جب خریدار اور فروخت کار ایک قیمت پر متفق ہو جائیں تو تیسرے آدمی کو دخل دینا جائز نہیں، البتہ ان کا سودا طے نہ پا سکے اور بات ختم ہو جائے تو پھر تیسرا آدمی خریدار سے یا بیچنے والے سے بات کرسکتا ہے۔
(4)
ایسی حرکات سے اجتناب ضروری ہے جن سے مسلمانوں میں جھگڑے پیدا ہوں اور کسی کی حق تلفی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2172
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2178
´بازار میں پہنچنے سے پہلے تاجروں سے جا کر ملنا اور ان سے سامان تجارت خریدنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر سے آنے والے سامان تجارت کو بازار میں پہنچنے سے پہلے نہ لیا کرو، اگر کوئی اس طرح خریداری کر لے، تو بازار میں آنے کے بعد صاحب مال کو اختیار ہو گا، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ (منسوخ) کر دے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2178]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
باہر سے آنے والے کو منڈی کی صورت حال کا علم نہیں ہوتا۔
بستی والوں میں سے کوئی باہر جا کر ملتا ہے اور سامان کے مالک سے اس کا سامان سستے داموں خرید لیتا ہے، یہ منع ہے۔
(2)
اس کے منع ہونے میں یہ حکمت ہے کہ مالک اور عوام کو نقصان نہ ہو کیونکہ جب مالک شہر میں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ مال زیادہ قیمت پرفروخت ہو سکتا تھا، اس تقصان پر اسے افسوس ہوتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ باہر والے کو واپس جانا ہوتا ہے، اس لیے وہ بعض اوقات چیز سستی بیچ دیتا ہے۔
اس سے شہر کے عوام کو فائدہ ہوتا ہے۔
جب شہر والے نے خرید لیا تو وہ ذخیرہ اندوزی کر سکتا ہے اور مہنگا کر کے آہستہ آہستہ بیچ سکتا ہے۔
اس میں عوام کو نقصان ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2178
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1222
´شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ۱؎ (بلکہ دیہاتی کو خود بیچنے دے“)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1222]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یعنی اس کا دلال نہ بنے،
کیونکہ ایساکرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے،
اگر باہرسے آنے والا خود بیچتا ہے تو وہ مسافرہو نے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1222
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3442
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح کے بعد اپنا پیغام نہ بھیجے، اور نہ ہی اپنے بھائی کے بھاؤ کے بعد بھاؤ لگائے، اور نہ ہی کسی عورت سے نکاح کے بعد اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ سے نکاح کرے اور نہ ہی کوئی عورت نکاح کے لیے پچھلی بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے کہ نتیجتاً اس کا برتن انڈیل دے، وہ نکاح کرے، جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھا ہے، وہ اس کو مل... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3442]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
اصول یا ضابطہ یہ ہے کہ جن دو عورتوں میں سے ایک مرد فرض کرنے کی صورت میں اس کا دوسری سے نکاح نہ ہو سکے ان کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ہے،
اس لیے خالہ اور بھانجی،
بھتیجی اور پھوپھی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا خواہ یہ رشتہ نسب و خون سے ہو یا دودھ سے،
خوارج اور بعض شیعہ کے سوا تمام امت کا اس پر اتفاق ہے،
پھوپھی باپ کی بہن ہو یا دادا اور اس کے اوپر کے اعتبار سے اسی طرح خالہ ماں کی بہن ہو یا نانی اور اس کے اوپر کے اعتبار سے،
خوارج اور شیعہ نے قرآنی آیت ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾ (مذکورہ عورتوں کے سوا تمھارے لیے حلال ہیں)
۔
(نساء آیت نمبر24)
سے استدلال کیا ہے حالانکہ قرآن مجید کی دوسری آیت میں ﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ﴾ (مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو۔
) (لبقرۃ آیت نمبر241)
کے ذریعہ مشرکات سے نکاح حرام کیا جا چکا ہے آیت عموم کی تخصیص کے بعد خبر واحد سے تخصیص احناف کے نزدیک بھی جائز ہے جبکہ باقی آئمہ کے نزدیک بلا قید آیت کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے اور یہ حدیث تو کئی صحابہ سے مروی ہے۔
2۔
اگر ایک مرد کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے چکا ہے اور اس کے ولی نے اس کی طرف اپنے میلان کا اظہار کر دیا ہے یا ہاں کردی ہے،
تو پھر کسی دوسرے مرد کے لیے پیغام دینا جائز نہیں،
اس طرح اگر ایک انسان کا دوسرے سے بھاؤ طے ہو رہا ہے یا طے ہو چکا ہے تو دوسرے کا دخل درست نہیں ہے،
ایک مرد کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کی پہلی بیوی موجود ہے،
تو اس دوسری عورت کے لیے پہلی بیوی کی طلاق کا مطالبہ جائز نہیں ہے،
کیونکہ اس طرح پہلی بیوی ظاہری اسباب کی روسے نان و نفقہ گھر بار اور خاوند سے محروم ہو سکتی ہے،
اس طرح اس کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے،
یہ دوسری شادی کر لے اس کی قسمت کا اس کو مل کر رہےگا۔
اس کے لیے پہلی کو نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3442
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3813
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مسلمان اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ نہ لگائے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3813]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر فریقین میں نرخ طے ہو چکا ہے،
پھر نرخ لگانا جائز نہیں ہے لیکن اگر نرخ طے نہیں ہوا تو پھر نرخ بڑھانے یا نیلام کرنے کے بارے میں تین قول ہیں:
(1)
جب ایک نے نرخ لگا دیا ہے تو پھر دوسرے کے لیے اس پر اضافہ کر کے چیز لینا جائز نہیں ہے۔
ابراہیم نخعی کا یہی موقف ہے۔
(2)
غنائم اور مواریث میں نرخ بڑھانا جائز ہے،
ان کے سوا جائز نہیں ہے۔
امام اوزاعی اور امام اسحاق کا یہی نظریہ ہے۔
(3)
جب نرخ طے نہیں ہوا،
بولی ہو رہی ہے،
اور کوئی انسان واقعی طور پر وہ چیز خریدنا چاہتا ہے،
محض دھوکہ دینے کے لیے نرخ نہیں بڑھاتا،
تو پھر جمہور کے نزدیک یہ جائز ہے۔
اور یہی موقف درست ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش کی صورت میں اضافہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3813
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3814
امام صاحب اپنے اساتذہ سے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3814]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام شافعی کے نزدیک ایسا کرنے والا مجرم اور گناہ گار ہو گا،
لیکن بیع ہو جائے گی،
اور امام داؤد ظاہری کے نزدیک یہ بیع نافذ نہیں ہو گی،
مالکیہ اور حنابلہ سے دونوں قول منقول ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3814
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3815
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خریدنے کے لیے تجارتی قافلہ کو راستہ میں نہ ملو، اور تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے، اور خریدار کو نہ بڑھکاؤ، نہ ابھارو، اور شہری بدوی کے مال کی فروخت نہ کرے، اور اونٹوں اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو، اور جو انسان ایسا جانور خرید لے گا، تو وہ دودھ دوہنے کے بعد دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کر سکے گا، اگر اسے جانور پسند ہے تو رکھ لے اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3815]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قافلہ کو راستہ میں ملنا،
شہری کا بدوی کی چیز بیچنا اور جانور کے تھنوں میں دودھ جمع کرنا،
یہ تینوں مسائل آگے مستقل ابواب میں آ رہے ہیں،
اس لیے ان کا مفہوم وہیں بیان ہو گا اور نجش کا معنی ہے جوش دلانا،
بھڑکانا،
یا دھوکا اور فریب دینا یا کسی چیز کی تعریف و مدح میں مبالغہ کرنا اور یہاں مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کا نرخ میں اس لیے اضافہ کرنا تاکہ دوسرا شخص جوش میں آ کر یا برانگیختہ ہو کر،
قیمت بڑھا دے اور اس سے دھوکا کھا جائے،
ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق یہ کام ناجائز ہے اور اگر یہ کام مالک کی ملی بھگت سے ہوا تو دونوں مجرم ہیں،
اگر اس کے علم کے بغیر ہوا تو صرف بولی بھڑکانے والا مجرم ہے،
لیکن اگر مقصود دوسرے کو پھنسانا نہیں ہے بلکہ چیز کی صحیح اور مناسب قیمت تک لے جانا ہے تو پھر مالکیہ اور احناف کے نزدیک صحیح ہے،
امام شافعی اور احناف کے نزدیک ناجائز ہونے کے باوجود یہ بیع ہو جائے گی،
لیکن اہلحدیث اور اہل ظاہر کے نزدیک باطل ہو گی (اگر علم ہو جائے)
امام مالک اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس صورت میں مشتری کو اگر نقصان زیادہ ہو تو بیع کو فسخ (توڑنے)
کا اختیار ہے،
اور بعض شوافع کے نزدیک اگر بائع کی مرضی سے یہ کام ہوا ہے تو پھر خریدار کو بیع توڑنے کا اختیار ہو گا،
وگرنہ نہیں اور اس اختلاف کا اصل سبب یہ ہے کہ احناف کے نزدیک کسی کام سے منع کرنا،
اس کے جرم اور گناہ ہونے کا تقاضا کرتا ہے،
اس کے فاسد اور باطل ہونے کا نہیں،
جب کہ جمہور کے نزدیک نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے،
جیسا کہ امام شوکانی نے ارشاد الفحول:
ص 97،
98 میں ثابت کیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3815
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3816
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ سے راستہ میں ملنے سے اور اس بات سے کہ شہری بدوی کے لیے خریدوفروخت کرے اور اس سے کہ عورت اپنی بہن کی طلاق کا سوال کرے اور بیع پر برانگیختہ کرنے اور تھنوں میں دودھ جمع کرنے سے اور اس سے کہ انسان اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ لگائے، منع فرمایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3816]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ شادی شدہ مرد کو یہ کہے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو،
میں تم سے شادی کر لوں گی،
یا کوئی شادی شدہ مرد کسی عورت سے کہے میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو وہ آگے سے کہے میں اس شرط پر تم سے شادی کرتی ہوں کہ تم پہلی بیوی کو طلاق دے دو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3816
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3822
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان لانے والوں سے باہر جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3822]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جلب:
اگر مصدر ہو تو پھر مفعول کے معنی میں ہو گا،
یعنی وہ سامان جو فروخت کرنے کے لیے لایا جاتا ہے اور اگر جالب کی جمع ہو جیسا کہ خَدَم،
خادِم کی جمع ہے تو پھر سامان لانے والے تاجر مراد ہوں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3822
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3823
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوداگروں کو شہر سے باہر نہ ملو، اور جو ان کو باہر جا کر ملا (اور سامان خرید لیا) تو پھر جب سامان کا مالک بازار میں آ گیا (اور بھاؤ معلوم کر لیا) تو اس کو (بیع توڑنے اور نہ توڑنے) کا اختیار ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3823]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تلقی کی صورت میں جو بیع ہوتی ہے وہ جمہور کے نزدیک نافذ ہو گی اور تلقی کرنے والا مجرم ہو گا۔
لیکن اہل ظاہر کے نزدیک وہ بیع باطل ہو گی،
منعقد نہیں ہو گی،
امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے لیکن اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
مالک سامان جب بازار میں آ کر بھاؤ معلوم کرے گا،
تو اس کو بیع کے توڑنے یا رکھنے کا اختیار ہو گا،
امام مالک،
امام شافعی اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہی درست ہے کہ مالک کو بیع کے رد کا حق حاصل ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے،
احناف نے امام ابو حنیفہ کے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کے مختلف جوابات دینے کی سعی لا حاصل کی ہے،
اس لیے علامہ ابن ہمام نے یہاں امام ابو حنیفہ کے موقف کو صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے،
تقی عثمانی صاحب اور غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی ابن ہمام کی تائید کی ہے۔
(تکملہ فتح الملہم:
ج 1 ص 333،
شرح صحیح مسلم،
سعیدی:
ج 4 ص 143)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3823
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2140
2140. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کے لیے خریدو فروخت کرنے سے منع فرمایا، نیز دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھانے سے بھی منع کیا اور کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کے پیغام پر اپنی منگنی کاپیغام ہی بھیجے۔ اسی طرح نہ کوئی عورت اپنی بہن کو طلاق دینے کا مطالبہ ہی کرے تاکہ جو کچھ اس کے برتن میں ہے اسے انڈیل دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2140]
حدیث حاشیہ:
یعنی باہر والے جو غلہ یا اشیاءباہر سے لاتے ہیں، وہ اکثر بستی والوں کے ہاتھ سستا بیچ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
اب کوئی شہر والا ان کو بہکائے، اور کہے ابھی نہ بیچو، یہ مال میرے سپرد کردو، میں اس کو مہنگا بیچ دوں گا۔
تو اس سے منع فرمایا، کیوں کہ یہ بستی والوں کو نقصان پہنچانا ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ محض بھاؤ بگاڑنے کے لیے بولی چڑھا دیتے ہیں۔
اور ان کی نیت خریدنے کی نہیں ہوتی۔
یہ سخت گناہ ہے اپنے دوسرے بھائی کو نقصان پہنچانا ہے۔
اسی طرح ایک عورت کے لیے کسی مرد نے پیغام نکاح دیا ہے تو کوئی دوسرا اس کو پیغام نہ دے کہ ہ بھی اپنے بھائی کی حق تلفی ہے۔
اسی طرح کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ جائز نہیں کہ اس کی پہلی موجودہ بیوی کو طلاق دلوانے کی شرط لگائے کہ یہ اس بہن کی سخت حق تلفی ہے۔
اس صورت میں وہ عورت اور مرد ہر دو گنہگار ہوں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2140
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2723
2723. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ” کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت نہ فروخت کرے، نہ کوئی دوسرے کو دھوکا ہی دے، اپنے بھائی کی لگائی ہوئی قیمت پر بھاؤ زیادہ نہ کرے (جبکہ خریدنے کی نیت نہ ہو) اور نہ کوئی اپنے بھائی کی منگنی پر اس عورت کو اپنا پیغام نکاح ہی بھیجے اور نہ کوئی عورت کسی مرد سے اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ ہی کرےتاکہ سب کچھ اپنے برتن میں انڈیل لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2723]
حدیث حاشیہ:
کوئی سوکن اپنی بہن کو طلاق دلوانے کی شرط لگائے تو یہ شرط درست نہ ہوگی، باب اور حدیث میں اسی سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2723
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2160
2160. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اورنہ دھوکا دہی کے لیے بھاؤ ہی چڑھائے، نیز کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2160]
حدیث حاشیہ:
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں و قد أخرج أبوعوانة في صحیحه عن ابن سیرین قال لقیت أنس بن مالك فقلت لا یبیع حاضر لباد أنهیتهم أن تبیعوا أو تبتاعوا لهم قال نعم الخ۔
یعنی ابن سیرین نے حضرت انس بن مالک ؓ سے پوچھا، کیا واقعی کوئی شہری کسی بھی دیہاتی کے لیے نہ کچھ مال بیچے نہ خریدے، انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
اور اس کی تائید اس حدیث نبوی سے بھی ہوتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا، دعوا الناس یرزقُ اللہ بعضهم من بعض۔
یعنی لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اللہ ان کے بعض کو بعض کے ذریعہ سے روزی دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2160
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2727
2727. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں کو باہر جا کر ملنے، شہری کا دیہاتی کے لیے بیع کرنے، عورت کا اپنی بہن کی طلاق کی شرط کرنے، کسی شخص کا اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنے، بلاوجہ قیمت زیادہ کرنے اور (خریدار کو دھوکا دینے کے لیے) دودھ والے جانور کا دودھ اس کے تھنو ں میں روکنے سے منع فرمایاہے۔ معاذ اور عبد الصمد نے شعبہ سے روایت کرنے میں محمد بن عرعرہ کی متابعت کی ہے۔ غندر اور عبدالرحمٰن کی روایت میں نهى, (صیغہ مجہول) کا لفظ ہے۔ آدم کی روایت میں نُهينا یعنی ہمیں منع کیا گیا جبکہ نضر اور حجاج بن منہال نےنهى (صیغہ معلوم) کا لفظ بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2727]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب حدیث کے لفظ وأن تشترط المرأة طلاق أختها سے نکلا کیو ں کہ اگر وہ سوکن کی طلاق کی شرط کرلے اور خاوند شرط کے موافق طلاق دے دے تو طلاق پڑ جائے گی ورنہ شرط لگانے کی ممانعت سے کوئی فائدہ نہیں۔
نجش دھوکا دینے کی نیت سے نرخ بڑھانا تاکہ دوسرا شخص جلد اس کو خرید لے، یا کسی بکتی ہوئی چیز کی برائی بیان کرنا تاکہ خریدار اس کو چھوڑ کر دوسری طرف چلا جائے اور تصریہ خریدار کو دھوکہ دینے کے لیے جانور کا دودھ اس کے تھنوں میں روک کر رکھنا۔
معاذ بن معاذ کی روایت اور عبدالصمد اور غندر کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا اور عبدالرحمن بن مہدی کی روایت حافظ صاحب کو موصولاً نہیں ملی اور حجاج کی روایت کو بیہقی نے وصل کیا اور آدم کی روایت کو انہوں نے اپنے نسخہ میں وصل کیا اور نضر کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے وصل کیا۔
(الحمد للہ کہ پارہ 10 پورا ہوا)
الحمد للہ! آج بتاریخ 10اپریل 1970ءیوم جمعہ بخاری شریف پارہ 10 کے متن مبارک کی قرات سے فراغت حاصل ہوئی، جب کہ مسجد نبوی میں گنبد خضراءکے دامن میں آنحضرت ﷺ کے مواجہ شریف کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں اور دعا کررہا ہوں کہ پروردگار اس عظیم خدمت حدیث میں مجھ کو خلوص اور کامیابی عطا فرما جب کہ تیرے پیارے حبیب کے ارشادات طیبات کی نشر و اشاعت زندگی کا مقصد وحید قرار دے رہا ہوں۔
مجھ کو اس کے ترجمہ اور تشریحات میں لغزشوں سے بچائیو، اس خدمت کو احسن طریق پر انجام دینے کے لیے میرے دل و دماغ میں ایمانی و روحانی روشنی عطا فرما کر قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائیو، میرا ایمان ہے کہ یہ مبارک کتاب تیرے حبیب ﷺ کے ارشادات طیبات کا ایک بیش بہا ذخیرہ ہے۔
جس کی نشرواشاعت آج کے دور میں جہاد اکبر ہے۔
اے اللہ! میرے جو جو بھائی جہاں جہاں بھی اس پاکیزہ خدمت میں میرے ساتھ ممکن اشتراک و مساعدت فرمارہے ہیں، ان سب کو جزائے خیر عطا فرما اور قیامت کے دن اپنے حبیب ﷺ کی شفاعت سے ان کو سرفراز کر اور ان سب کو جنت نصیب فرمانا، آمین یا رب العالمین۔
(2 صفر 1390 ھ یوم الجمعہ۔
مدینہ طیبہ)
الحمد للہ کہ ترجمہ اور تشریحات کی تکمیل سے آج فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں جو بھی محنت کی گئی ہے اور لفظ لفظ کو جس گہری نظر سے دیکھا گیا ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
پھر بھی غلطیوں کا امکان ہے، اس لیے اہل علم سے بصد ادب درخواست ہے کہ جہاں بھی لغزش نظر آئے مطلع فرماکر میری دعائیں حاصل کریں۔
الإنسان مرکب من الخطاء و النسیان مشہور مقولہ ہے۔
سال بھر سے زائد عرصہ اس پارے کے ترجمہ و تشریحات پر صرف کیا گیا ہے اور متن و ترجمہ کو کتنی بار نظروں سے گزارا گیا ہے، اس کی گنتی خود مجھ کو یاد نہیں۔
یہ محنت شاقہ محض اس لیے برداشت کی گئی کہ یہ جناب سرکار دو عالم رسول کریم احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کے پاکیزہ فرامین عالیہ کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔
اس میں غور و فکر وسیلہ نجات دارین ہے۔
اور اس کی خدمت و اشاعت موجب صد اجرعظیم ہے۔
یا اللہ! یہ حقیر خدمت محض تیری و تیرے محبوب رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنے کے لیے انجام دی جارہی ہے۔
اس میں خلوص اور کامیابی بخشنا تیرا کام ہے۔
جس طرح یہ دسواں جزءتو نے پورا کرایا ہے، اس سے بھی زیادہ بہتر دوسرے بیس پاروں کو بھی پورا کرائیو اور میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی خدمت حدیث کا یہ مبارک سلسلہ جاری رکھنے کی میرے عزیزوں کو توفیق دیجيو کہ سب کچھ تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے تو فعال لما یرید ہے۔
بے شک ہر چیز پر تو قادر ہے۔
جو ہوا تیرے ہی کرم سے ہوا جو ہوگا تیرے ہی کرم سے ہوگا خادم حدیث نبوی محمد داؤد راز السلفی الدہلوی رہپواہ، ضلع گوڑگاؤں (ہریانہ، بھارت)
یکم محرم الحرام1391ھ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2727
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2140
2140. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کے لیے خریدو فروخت کرنے سے منع فرمایا، نیز دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھانے سے بھی منع کیا اور کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کے پیغام پر اپنی منگنی کاپیغام ہی بھیجے۔ اسی طرح نہ کوئی عورت اپنی بہن کو طلاق دینے کا مطالبہ ہی کرے تاکہ جو کچھ اس کے برتن میں ہے اسے انڈیل دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2140]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کو اجازت دینے یا چھوڑجانے کے ساتھ مقید کیا ہے جبکہ احادیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے صحیح مسلم کی روایت طرف اشارہ کیا ہے جس میں اس قید کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3812(1412)
اسی طرح بھاؤ پر بھاؤ لگانے کا ذکر بھی ان احادیث میں نہیں ہے، البتہ امام بخاری نے کتاب الشروط میں جس روایت کو بیان کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
”کوئی آدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے۔
“ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2727) (2)
واضح رہے کہ ان احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ کسی دوسرے کی خریدوفروخت میں مداخلت کرنا، یہ امر اخلاق کریمانہ سے بعید ہے کہ ایک شخص اپنا سامان بیچ رہا ہویا کوئی شخص کچھ خریدرہا ہو تو کوئی دوسرا شخص درمیان میں کود پڑے اور ان کے سودے میں مداخلت کرے۔
٭دیہاتی لوگ جو اپنی اشیاء اہل شہر سے سستے داموں فروخت کرجاتے ہیں، ان سے کوئی شہری کہے کہ تم اسے فروخت نہ کرو بلکہ میرے پاس رکھ جاؤ، میں اسے مہنگے دام فروخت کروں گا۔
ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس سے شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
٭کچھ لوگ بھاؤ چڑھانے کے لیے بولی دیتے ہیں لیکن ان کی نیت کچھ بھی خریدنے کی نہیں ہوتی،ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے، البتہ نیلامی میں لینے کی نیت سے بڑھ چڑھ کو بولی دی جاسکتی ہے۔
٭اگر کسی مرد نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے،ابھی بات چیت کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچتی کہ دوسرا اسے پیغام دے، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے پہلے مردکی حق تلفی ہوتی ہے۔
٭ کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط لگادے، ایسا کرنا بھی جائز نہیں۔
ایسا کرنے سے مرد اور عورت دونوں گناہ گار ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2140
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2150
2150. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”تجارتی قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو (آگے جاکر ان سے مال نہ خریدو) اور نہ کوئی ایک دوسرے کی بیع پر بیع ہی کرے، نیز بھاؤ بڑھانے کے لیے قیمت نہ لگاؤ اور نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کرے، نہ کوئی بکریوں کے تھنوں میں دودھ ہی روکے۔ اگر کسی نے ایسی بکری خریدی تو دودھ دوہنے کے بعد اسے دو باتوں میں سے بہتر اور پسندیدہ کے اختیار کرنے کاحق حاصل ہے، چاہے تو اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اورچاہے تو ایک صاع کھجور ساتھ دے کر وہ واپس کردے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2150]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں چند ایک کاروباری طریقۂ واردات سے منع کیا گیا ہے۔
تلقي الركيان اور تلقی البیوع ایک ہی چیز کے دونام ہیں،مثلاً:
شہریوں کو خبر ملی کہ مال تجارت باہر سے آرہاہے۔
وہ شہر سے باہر دور چلے جائیں اور انھیں شہر میں آنے اور بھاؤ کا علم ہونے سے پہلے وزن سے کم قیمت پر مال تجارت خرید لیں،پھر دو شہر لاکر اسے مہنگے داموں فروخت کریں، ایسا کرنا جائز نہیں۔
حدیث میں مذکور دیگر معاملات کی شرح پہلے بیان ہو چکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2150
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2162
2162. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے (تجارتی قافلوں سے) آگے بڑھ کر ملنے سے منع فرمایا اور اس سے بھی (منع فرمایا) کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کامال تجارت بیچے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2162]
حدیث حاشیہ:
(1)
تلقی کے معنی استقبال کرنا ہیں۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
٭ قحط سالی کے وقت غلہ خریدنے والے شہر سے باہر جاکر دیہاتیوں سے سستے داموں غلہ خرید کریں اور شہر میں لاکر اسے زیادہ قیمت پر فروخت کریں۔
٭دیہا تیوں کو شہر کے بھاؤ کا علم نہ ہو،خریدار شہر سے باہر جاکر سستے نرخ پر خریدکریں، پھر اسے مہنگے نرخ پر فروخت کریں۔
یہ دونوں صورتیں شرعاً ممنوع ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کے نزدیک ایسی خریدوفروخت مردود ہے کیونکہ کسی کام سے نہی اس کے فساد کا تقاضا کرتی ہے۔
اہل ظاہر کا بھی یہی مذہب ہے جبکہ بعض محققین کہتے ہیں:
بیع صحیح ہے،البتہ اختیار ثابت ہوگا کیونکہ نہی رکبان قافلہ والوں کا نقصان دور کرنے کےلیے ہے اور ان کا نقصان، انھیں اختیار ملنے سے دور ہوسکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2162
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2723
2723. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ” کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت نہ فروخت کرے، نہ کوئی دوسرے کو دھوکا ہی دے، اپنے بھائی کی لگائی ہوئی قیمت پر بھاؤ زیادہ نہ کرے (جبکہ خریدنے کی نیت نہ ہو) اور نہ کوئی اپنے بھائی کی منگنی پر اس عورت کو اپنا پیغام نکاح ہی بھیجے اور نہ کوئی عورت کسی مرد سے اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ ہی کرےتاکہ سب کچھ اپنے برتن میں انڈیل لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2723]
حدیث حاشیہ:
(1)
کوئی بھی عورت کسی شخص سے یہ نہ کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر مجھ سے نکاح کر لو۔
اس طرح جو کچھ حقوق زوجیت اس کے لیے ہیں ان پر شب خون مار کر اپنے لیے حاصل کر لے۔
(2)
نکاح کے وقت کوئی عورت اپنی سوکن کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے تو اس قسم کی شرط ناجائز اور حرام ہے۔
اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو دوسری بیوی کے لیے تباہی کا منصوبہ نہ بنائے، خاموشی سے نکاح کر لے اور جو کچھ اس کے مقدر میں ہے اس پر قناعت کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2723
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2727
2727. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں کو باہر جا کر ملنے، شہری کا دیہاتی کے لیے بیع کرنے، عورت کا اپنی بہن کی طلاق کی شرط کرنے، کسی شخص کا اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنے، بلاوجہ قیمت زیادہ کرنے اور (خریدار کو دھوکا دینے کے لیے) دودھ والے جانور کا دودھ اس کے تھنو ں میں روکنے سے منع فرمایاہے۔ معاذ اور عبد الصمد نے شعبہ سے روایت کرنے میں محمد بن عرعرہ کی متابعت کی ہے۔ غندر اور عبدالرحمٰن کی روایت میں نهى, (صیغہ مجہول) کا لفظ ہے۔ آدم کی روایت میں نُهينا یعنی ہمیں منع کیا گیا جبکہ نضر اور حجاج بن منہال نےنهى (صیغہ معلوم) کا لفظ بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2727]
حدیث حاشیہ:
اگر عورت کسی سے نکاح کے وقت اپنی اسلامی بہن کی طلاق کی شرط لگائے اور خاوند اس کی شرط کے مطابق اسے طلاق دے دے تو طلاق ہو جائے گی کیونکہ معلق طلاق میں شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
اگر مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہ ہو تو اس سے منع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
معاذ، عبدالصمد اور غندر کی روایات کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3817،3816(1515)
اسی طرح نضر کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اور حجاج بن منہال کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔
(فتح الباري: 399/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2727